قبرستان میں صدقے کا گوشت پھینکنا کیسا؟

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Sar-7078

تاریخ اجراء:18صفرالمظفر1442ھ/06 اکتوبر2020

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتےہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کےبارےمیں کہ بعض افرادصدقہ دینےکےلیےگوشت قبرستان میں پھینک دیتےہیں،جہاں یہ گل سڑجاتا ہے،شرعی رہنمائی فرمادیں کہ ایساکرناکیسا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    صدقہ دینےکےلیےگوشت قبرستان میں اس طرح پھینک دیناکہ  جانور مثلا بلی کتے  یا چیل کوے کھا جائیں گے،تو فی نفسہ گناہ نہیں، اگرچہ بہتر یہی ہے کہ غریب مسلمانوں کو گوشت دیا جائے اور اگر یوں پھینکا کہ کسی کےاستعمال میں نہ آئے،بلکہ گل سڑکرضائع ہوجائے،توایسا کرنا،ناجائزوگناہ ہےکہ یہ مال کوضائع کرناہےاوربلاوجہ شرعی مال کوضائع کرنا،جائزنہیں ہے،لہذاصدقہ کےلیےگوشت کوقبرستان میں پھینکنےکی  بجائےغریب مسلمانوں کوکھلایاجائے۔

    اسراف سے بچنے  کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ﴿ لَا تُسْرِفُوۡا اِنَّہٗ لَایُحِبُّ الْمُسْرِفِیۡن﴾ترجمہ:اوربےجانہ خرچو،بےشک بےجا خرچنےوالےاسےپسندنہیں۔

       (سورۃ الانعام،پارہ8،آیت141)

    مال ضائع  کرنے کےبارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کاارشادہے:”ان    اللہ كره لكم ثلاثاقيل وقال،واضاعة المال،وكثرة السؤال“ترجمہ:بےشک اللہ تعالیٰ تمہارےلیےتین کاموں کوناپسندفرماتاہے(1)فضول باتیں(2)مال ضائع کرنا(3)سوالات کی کثرت۔

   (صحیح بخاری،کتاب الزکاۃ،جلد1،صفحہ200،مطبوعہ کراچی)

    اسی بارےمیں ایک اورحدیث پاک میں ہے:”نهى النبی صلى اللہ عليه وسلم عن اضاعةالمال“ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کوضائع کرنےسےمنع فرمایا۔

        (صحیح بخاری،کتاب الزکاۃ،جلد1،صفحہ192،مطبوعہ کراچی)

    اگرکوئی چیزاس طرح پھینک دی جائے،جوکسی بھی مصرف میں استعمال نہ ہوسکے،تووہ اسراف ہے،چنانچہ فتاوی رضویہ میں ہے:” رہی صورت اخیرہ کہ محض بلاوجہ زیادت ہو،اوپرواضح ہولیاکہ یہاں تحقیق اسراف وحصول ممانعت،اضاعت پرموقوف ہے،تواس صورت میں دیکھناہوگاکہ پانی ضائع ہوایانہیں؟اگرہوا،مثلاًزمین پربہہ گیااورکسی مصرف میں کام نہ آیا،توضروراسراف ونارواہے۔“

    (فتاوی رضویہ،جلد1،صفحہ989،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

    فتاوی رضویہ میں سوال ہواکہ گاؤں کےافرادمرض کےدنوں میں(بطورصدقہ)سیاہ رنگ کابکراخریدکرلاتےہیں اوراس کےدونوں کانوں  میں سورہ یسین اورسورہ ملک پڑھ کرپھونکتےہیں اورپھراسےگاؤں کےگردگھماپھراکرپہلےمقام پرلاکرذبح کردیتےہیں اوراس کی کھال اور ہڈیاں وہیں دفن کردیتے ہیں اورگوشت کوتقسیم کردیتےہیں؟تواس کاجواب دیتےہوئےاعلی حضرت علیہ الرحمۃ نےارشادفرماما:”کسی جانورکواللہ تعالیٰ کی رضاوخوشنودی کےلیےذبح کرکےاس کاگوشت مسلمانوں میں تقسیم کرنااوراسی طرح سورہ یسین اورسورہ ملک کی تلاوت کرنابہترین اور مستحسن اعمال ہیں،اللہ تعالیٰ کےاذن سےبلاومصیبت کوٹالنےکامؤثرذریعہ ہیں۔رہاکھال کودفن کردینےکامعاملہ،تویہ مال کوضائع کردینےکے مترادف ہے،جوجائزنہیں،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےاس ارشادگرامی کی وجہ سےکہ:’’بےشک اللہ تعالیٰ نےتمہارےلیے ان تین کاموں کوناپسندفرمایا(1)مال ضائع کرنا(2)زیادہ سوال کرنا(3)اِدھراُدھرکی بےہودہ اورلغوباتیں کرنا،لہذامناسب یہ ہےکہ بکرےکی کھال محتاجوں، ناداروں کوبطوراعانت وامداددےدی جائے۔“

   (فتاوی رضویہ،جلد24،صفحہ187تا188،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

    فتاوی رضویہ میں اس شخص کےمتعلق سوال ہواکہ جس نے بکری کی کلیجی کوقبرمیں دفن کردیا ،تواس کےجواب میں اعلی حضرت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن نےارشادفرمایا:”کلیجی دفن کرنامال ضائع کرناہےاوراضاعت مال ناجائزہے ۔“

(فتاوی رضویہ،جلد20،صفحہ455،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم