مانگنے والے فقیروں کو کچھ دینا کیسا؟

مجیب: مولانا  محمد سجاد  عطاری مدنی   زید مجدہ

فتوی نمبر: Web:53

تاریخ اجراء: 29 جمادی الاولی 1442 ھ/14 جنوری2021 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ گھر میں جو  فقیر  یا خواجہ سرا   مانگنے آتے ہیں ان کو دینا کیسا ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     جس شخص کے پاس اپنی ضروریات شرعیہ کو پورا کرنے کی مقدار  مال ہےیعنی ایک دن کا کھاناکھانے کے پیسے  اور بدن چھپانے کے لیے  کپڑا موجود ہے یا ضروریات ِ شرعیہ کی مقدار مال کمانےکی طاقت رکھتا ہے تو  اسے سوال کرنا حرام ہے  خواہ وہ مرد ہو یا خواجہ سرا  وغیرہ  ۔اسی طرح  اگر  دینے والے کو معلوم ہو کہ اس کے پاس   بقدر ضروریات شرعیہ  مال ہے تو اسے  دینا بھی حرام ہے۔  گھروں پر  جو  فقیر یا  خواجہ سر  ا  مانگنے آتے ہیں وہ عام طور پر  پیشہ ور ہوتے ہیں اور پیشہ وربھکاری کو دینا بھی گناہ ہے  لہذا اگر  معلوم  ہو کہ مانگنے والا پیشہ ور ہے تو  اسے  بھیک دے کر گناہوں بھری عادت پر ان کی مُعاوَنت(یعنی امداد) نہ کی جائےاور نہ ہی خود گنہگا ر ہو ا جائے ۔

     پیشہ ور  گداگروں کے متعلق سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ  سے فتاوی رضویہ شریف میں سوال ہوا ’’ جو لوگ تندرست و توانگر کھاتے پیتے ہیں انھوں نے اپنا پیشہ گدائی اور فقیری اور محتاجگی کا مقرر کیا ہے اور دربدر شہر بہ شہر  بھیک مانگتے سوال کرتے پھرتے ہیں اور ہرگز محنت مزدو ری نہیں کرتے اگر چہ مالدار آسودہ حال ہیں ایسے لوگوں کو بھیک مانگنا اور سوال کرنا حلال ہے یا حرام؟ اور اگر حرام ہے تو دینا بھی بوجہ اعانت علی الحرمۃ، حرام اور ممنوع ہے یا نہیں؟

     اس کے جواب میں آپ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :’’جو اپنی ضروریات شرعیہ کے لائق مال رکھتا ہے یا اس کے کسب پر قادر ہے اُسے سوال حرام ہے اور جو اس مال سے آگاہ ہو اُسے دینا حرام، اور لینے اور دینے والا دونوں گنہگار و مبتلائے آثام۔ صحاح میں ہے رسول اﷲصلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم فر ماتے ہیں:’’لاتحل الصدقۃ لغنی ولذی مرۃ سوی رواہ الائمۃ احمد والدارمی والاربعۃ عن ابی ہریرۃ رضی اﷲتعالیٰ عنہ“صدقہ حلال نہیں ہے کسی غنی کے لیے، نہ کسی تندرست کے لیے( اسے امام احمد، دارمی اور چاروں ائمہ نے حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے روایت کیا۔‘‘

(ملخص ازفتاوی رضویہ ،جلد 10،صفحہ306،307،رضا فاؤنڈیشن لاہور)

     ایک اور مقام پر فرماتےہیں :’’اسی باب سے ہے کہ قوی تندرست قابل کسب جو بھیک مانگتے پھرتے ہیں ان کو دینا گناہ ہے کہ ان کا بھیک مانگنا حرام ہے اور ان کودینے میں اس حرام پرمدد، اگر لوگ نہ دیں تو جھک ماریں اور کوئی پیشہ حلال اختیار کریں۔درمختار میں ہے: لایحل ان یسأل شیئا من القوت من لہ قوت یومہ بالفعل اوبالقوۃ کا لصحیح المکتسب ویأثم معطیہ ان علم بحالہ لاعانتہ علی المحرم “یہ حلال نہیں کہ آدمی کسی سے روزی وغیرہ کا سوال کرے جبکہ اس کے پاس ایک دن کی روزی موجود ہو یا اس میں اس کے کمانے کی طاقت موجود ہو، جیسے تندرست کمائی کرنے والا، اور اسے دینے والا گنہگار ہوتا ہے اگر اس کے حال کو جانتا ہے کیونکہ حرام پر اس نے اس کی مدد کی۔ (فتاوی رضویہ ،جلد 23،صفحہ463،464،رضا فاؤنڈیشن لاہور)

     صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :’’   آج کل ایک عام بلا یہ پھیلی ہوئی ہے کہ اچھے خاصے تندرست چاہیں تو کما کر اوروں کو کھلائیں، مگر انہوں نے اپنے وجود کو بیکار قرار دے رکھا ہے، کون محنت کرے مصیبت جھیلے،بے مشقت جو مل جائے تو تکلیف کیوں برداشت کرے۔ ناجائز طور پر سوال کرتے اور بھیک مانگ کر پیٹ بھرتے ہیں اور بہتیرے ایسے ہیں کہ مزدوری تو مزدوری، چھوٹی موٹی تجارت کو ننگ و عار خیال کرتے اور بھیک مانگنا کہ حقیقۃً ایسوں کے لیے بے عزتی و بے غیرتی ہے مایہ عزت جانتے ہیں اور بہتوں نے تو بھیک مانگنا اپنا پیشہ ہی بنا رکھا ہے، گھر میں ہزاروں روپے ہیں سود کا لین دین کرتے زراعت وغیرہ کرتے ہیں مگر بھیک مانگنا نہیں چھوڑتے، اُن سے کہا جاتا ہے تو جواب دیتے ہیں کہ یہ ہمارا پیشہ ہے واہ صاحب واہ! کیا ہم اپنا پیشہ چھوڑ دیں۔ حالانکہ ایسوں کو سوال حرام ہے اور جسے اُن کی حالت معلوم ہو، اُسے جائز نہیں کہ ان کو دے۔‘‘

(بہار شریعت ،حصہ 5،صفحہ941،  مکتبۃ المدینہ )

     بہارشریعت میں ہے :’’جس کے پاس آج کھانے کو ہے یا تندرست ہے کہ کما سکتا ہے اُسے کھانے کے لیے سوال حلال نہیں اور بے مانگے کوئی خود دے دے تو لینا جائز اور کھانے کو اُس کے پاس ہے مگر کپڑا نہیں تو کپڑے کے لیے سوال کر سکتا ہے۔۔۔۔ ، جسے سوال جائز نہیں اُس کے سوال پر دینا بھی ناجائز دینے والا بھی گنہگار ہوگا۔‘‘

(بہار شریعت ،حصہ 5،صفحہ934،  مکتبۃ المدینہ )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم