قبلہ کی طرف ٹانگیں پھیلانا،تھوکنا وغیرہ کیسا؟

مجیب:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Pin-6305

تاریخ اجراء:04محرم الحرام1441ھ04ستمبر2019ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتےہیں علمائےدین  ومفتیانِ شرعِ  متین اس مسئلے کے بارےمیں  کہ جان  بوجھ  کر قبلہ شریف  کی طرف  ٹانگیں  پھیلانا ، تھوکنا،پیشاب کرنا  وغیرہ یہ سوچتے ہوئے  کہ اس سے  کچھ نہیں ہوتا،نہ ہی ایسا  کرنا  گناہ ہے اور اسی طرح  انجانے میں ایسا  کرنےکے بارے میں شرعی رہنمائی فرمائیں کہ ایسا کرنا کیسا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    بغیرکسی صحیح عذرکےجان بوجھ کرقبلہ شریف کی طرف ٹانگیں پھیلانا،تھوکنا اور پیشاب کرناشرعاًممنوع ومکروہ افعال  ہیں کہ اس طرح کرنےمیں قبلہ  شریف کی بےادبی ہے۔ان افعال میں ٹانگیں پھیلانے کا حکم  مکروہ ہے،جبکہ تھوکنے کی ممانعت زیادہ شدید ہےاور اسے حدیث مبارک میں اللہ و رسول عزوجل وصلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ایذا دینا قرار دیا ہےاور علامہ عینی علیہ الرحمۃ نے توعلامہ قرطبی مالکی علیہ الرحمۃ کے حوالے سےاسے مکروہِ تحریمی قرار دیا ہےاورقضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنے کی ممانعت توصریح احادیث اور تصریحاتِ فقہائے احناف کے مطابق گناہ ہے اور اس پر متعدد احادیثِ طیّبہ موجود ہیں،بلکہ اس معاملے میں تو قبلہ کو پیٹھ کر کےبھی پیشاب یا پاخانہ کرنا،ناجائز و گناہ ہے،لہٰذا یہ کہنا کہ اس میں کوئی گناہ نہیں،بالکل غلط ہےاور انجانے سے مراد اگر قبلہ کی جہت معلوم نہ ہو ہے،پھر توگناہ نہیں،لیکن جیسے ہی معلوم ہو،تو فوراًشریعت مطہرہ کے حکم کے مطابق اپنے فعل کی اصلاح کر لے،لیکن اگر انجانےسے مرادشرعی مسئلے سے لاعلمی ہے،تو یہ کوئی عذر نہیں کہ دارالاسلام میں شرعی مسائل سے جہالت عذر نہیں ہوتی،بلکہ حکم یہ ہے کہ شرعی مسائل سیکھے۔

    یادرہے!یہ احکام اس صورت میں ہیں کہ کوئی بداعتقادی نہ ہو،ورنہ معاذاللہ کسی کا یہ اعتقاد ہو کہ قبلہ کوئی تعظیم والی شے نہیں ہےاور اس وجہ سےان افعال  میں سے کسی فعل کا ارتکاب کرے،توقبلہ شریف کو ہلکا جاننےکی وجہ سےاُس پرحکمِ کفر ہو گا،لیکن کسی مسلمان سے ایسی سوچ متصور نہیں۔

    جان بوجھ کرقبلہ کی طرف پاؤں پھیلانامکروہِ تنزیہی ہےیعنی گناہ تو نہیں،لیکن اس سےبچناچاہیے۔چنانچہ تنویر الابصارمع الدرمیں ہے: ’’کرہ(مد رجلیہ فی نوم او غیرہ الیھا)ای عمدالانہ اساءۃ ادب‘‘ترجمہ:جان بوجھ کر قبلہ کی طرف پاؤں کر کے سونا یااس کے علاوہ  جان بوجھ کرقبلہ کی طرف پاؤں پھیلانامکروہ ہے،کیونکہ اس میں قبلہ کی بے ادبی ہے۔

(تنویر الابصارمع الدر،جلد2،صفحہ515تا516،مطبوعہ پشاور)

    علامہ طحطاوی علیہ الرحمۃ اس کے تحت فرماتے ہیں:’’(عمدا)ای من غیر عذراما بالعذر او السھو فلا(قولہ لانہ اساءۃ ادب)افاد ان الکراھۃ للتنزیہ‘‘ترجمہ:جان بوجھ کر بغیرعذرکے قبلہ کی طرف پاؤں پھیلانامکروہ ہے،بہرحال عذر یابھول سےہو،تو مکروہ نہیں۔ ’’کیونکہ  قبلہ کی طرف پاؤں پھیلانابےادبی ہے‘‘یہ کلام اس بات کافائدہ دےرہاہےکہ اس کراہت سے مراد کراہت تنزیہی ہے۔

(حاشیۃ الطحطاوی علی الدر،جلد1،صفحہ276،مطبوعہ کوئٹہ)

    امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’کعبہ معظّمہ(قبلہ)کی طرف پاؤں کر کے سونا،بلکہ اُس طرف پاؤں پھیلانا، سونے میں ہو خواہ جاگنے میں،لیٹےمیں  ہو خواہ بیٹھے میں،ہر طرح ممنوع و بے ادبی ہے۔‘‘

(فتاوی رضویہ،جلد23،صفحہ385،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

    قبلہ کی طرف تھوکناسخت ممنوع ہے۔چنانچہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’من تفل تجاہ القبلۃ جاء یوم القیامۃ تفلہ بین عینیہ‘‘ترجمہ:جس نے قبلہ کی طرف تھوکا،وہ قیامت کے دن اس حالت میں آئے گا کہ اُس کا تھوک اُس کی آنکھوں کے درمیان(پیشانی پر) ہو گا۔

(سنن ابی داؤد،جلد2،صفحہ179،مطبوعہ لاھور)

    اور ایک موقع پر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”اذا قام احدکم الی الصلاۃ فلا یبصق امامہ فانما یناجی اللہ مادام فی الصلاۃ“ترجمہ:جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے،تو(نماز میں)اپنے سامنے کی جانب نہ تھوکے کہ آدمی جب تک نماز میں ہوتا ہے،اللہ تعالیٰ سے مناجات کر رہا ہوتا ہے۔

           (صحیح بخاری،جلد1،صفحہ59،مطبوعہ کراچی)

    نمازمیں ہوں یا نماز کے علاوہ ،بہر صورت قبلہ کی طرف تھوکنا منع ہے۔چنانچہ محدث کبیر ملا علی قاری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’البزاق الی القبلۃ دائما ممنوع فالشرطیۃ لافادۃ زیادۃ القبح‘‘ترجمہ:(نماز میں ہوں یانماز کے علاوہ)قبلہ کی طرف تھوکناہمیشہ ممنوع ہے،پس حدیث پاک میں نماز کے ساتھ اسے مشروط کرنا،اس بات کا فائدہ دے رہا ہے کہ نماز میں قبلہ کی طرف تھوکنا زیادہ  قبیح(بُرا) ہے۔

(مرقاۃ المفاتیح،جلد2،صفحہ624،دارالفکر،بیروت)

    علامہ بدر الدین عینی علیہ الرحمۃ اسی طرح کی ایک حدیثِ پاک کےتحت فرماتے ہیں:’’قال القرطبی الحدیث دال علی تحریم البصاق فی القبلۃ فان الدفن لایکفیہ قیل ھو کما قال وقیل دفنہ کفارتہ و قیل النھی للتنزیہ والاصح انہ للتحریم‘‘ترجمہ:امام قرطبی علیہ الرحمۃ نے فرمایاکہ یہ حدیث پاک قبلہ کی طرف تھوکنے کے حرام ہونے پر دلالت کر رہی ہے،پس اس تھوک کو دفن کردینا کافی نہیں ہوگا،ایک قول تو یہی ہے،جو امام قرطبی علیہ الرحمۃ نے فرمایا اور ایک قول یہ ہے کہ دفن کرنااس گناہ کا کفارہ ہو جائے گااور کہا گیا ہے کہ اس نہی سے مرادنہئ تنزیہی ہےاور اصح یہ ہے کہ اس سے مراد نہئ تحریمی ہے۔

     (عمدۃ القاری،جلد4،صفحہ150،داراحیاء التراث العربی،بیروت)

    قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی جانب منہ یا پیٹھ کرنا،مکروہِ تحریمی وناجائزہے۔چنانچہ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”اذا اتیتم الغائط فلاتستقبلواالقبلۃ ولاتستدبروھا“ترجمہ:جب تم قضائے حاجت کے لیے جاؤ،توقبلہ کی جانب نہ تو منہ کرو،نہ پیٹھ۔

(صحیح بخاری،جلد1،صفحہ57،مطبوعہ کراچی)

    حضرت  سیّدناابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:”قدمنا الشام فوجدنا مراحیض بنیت قبل القبلۃ فننحرف و نستغفر اللہ تعالی “ ترجمہ:ہم ملکِ شام آئے، وہاں استنجاء خانوں کارُخ قبلہ کی جانب پایا،تو ہم قضائے حاجت کے وقت قبلہ سے اپنامنہ پھیر لیتےاور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں استغفار کرتے۔

                (صحیح بخاری،جلد1،صفحہ57،مطبوعہ کراچی)

    تنویرالابصارمع الدر میں ہے:”کرہ تحریما استقبال قبلۃ واستدبارھا،  لاجل بول او غائط “ترجمہ:بول وبرازکے وقت قبلہ کی جانب منہ یا پیٹھ کرنا مکروہِ تحریمی ہے۔                                  

(تنویرالابصارمع الدر،جلد1،صفحہ608،مطبوعہ پشاور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم