انگوٹھی پر مقدس نام لکھوانا اور ایسی انگوٹھی پہن کر بیت الخلاء جانا کیسا؟

مجیب:مفتی ہاشم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Lar-9170

تاریخ اجراء:25صفرالمظفر1441 ھ/25اکتوبر2019ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان  شرع  متین اس مسئلے کے بارے میں کہ انگوٹھی پراللہ  عزوجل  کامبارک نام لکھوانا کیساہے؟اوراگرکسی نے لکھوالیاہو،توکیاایسی انگوٹھی پہن کربیت الخلاء جاسکتے ہیں ؟ 

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    انگوٹھی پراللہ عزوجل کامبارک نام لکھوانا،شرعاًجائزہےاورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اوربزرگوں سے ایسی انگوٹھی پہننا، جس میں اللہ پاک کااسم مبارک ہو،ثابت ہےاورایسی انگوٹھی جس میں متبرک نام جیسے اللہ تعالیٰ کا اسم مبارک یا اسمائے انبیاء وملائکہ علیہم الصلوۃ والثناء لکھے ہوں،پہن کربیت الخلاء جانامکروہ ہےاورحکم شرعی یہ ہے کہ ایسی انگوٹھی کسی نے پہنی ہو،توجب وہ بیت الخلاء جائےاپنے ہاتھ سے انگوٹھی نکال کر باہر رکھ لے ۔بہتر یہی ہے اوراگر اس کے ضائع ہونے کا خوف ہو تو جیب میں ڈال لے یا کسی دوسری چیز میں لپیٹ لے کہ یہ بھی جائز ہے ،اگر چہ بے ضرورت اس سے بچنا بہتر ہے۔

    صحيح مسلم  میں حضرت انس  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :”ان النبي صلى اللہ عليه وسلم أراد أن يكتب إلى كسرى، وقيصر، والنجاشي، فقيل: إنهم لا يقبلون كتابا إلا بخاتم، فصاغ رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم خاتما حلقته فضة، و نقش  فيه محمد رسول اللہ“یعنی :رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب یہ ارادہ فرمایا کہ کسریٰ و قیصر و نجاشی کو خطوط لکھے جائیں، تو کسی نے یہ عرض کی: وہ لوگ بغیر مہرکے خط قبول نہیں کرتے۔ حضور (صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم)نے انگوٹھی بنوائی،جس کاحلقہ چاندی کاتھا اور اس میں یہ نقش تھا ”محمدرسول اﷲ“۔

 (الصحیح لمسلم ، كتاب اللباس والزينة ،باب في اتخاذ النبي ،جلد3،صفحہ1657، دار إحياء التراث العربي ،بيروت)

    متبرک ناموں اورمقدس کلمات والی انگوٹھیاں پہننا بزرگوں سے ثابت ہے،چنانچہ اما م قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر قرطبی میں اورعلامہ شمس الدین محمد بن عمر بن احمد السفیری الشافعی (المتوفی956ھ) رحمۃ اللہ علیہ بخاری شریف کی شرح میں فرماتے ہیں:”وفی الحدیث دلالۃ علی جواز نقش الخاتم ونقش اسم صاحبہ علیہ، وعلی جواز نقش اسم اللہ تعالی علیہ من غیر کراھۃ ، لأن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نقش علی خاتمہ محمد رسول اللہ، واتخذ کثیر من السلف من العلماء والأنبیاء وغیرھم خواتم نقشوا علیھا۔فقد نقل عن الإمام مالک أنہ اتخذ خاتماً نقش علیہ(حسبی اللہ ونعم الوکیل)وعن إمامنا الشافعی أنہ اتخذ خاتماً ونقش علیہ”اللہ ثقتی محمد بن إدریس“یعنی :حدیث میں اس بارے رہنمائی ہے کہ انگوٹھی پرکچھ کَنْدَہ کروانا، جائزہےاور انگوٹھی والا اپنانام بھی کَنْدَہ(یعنی نقش) کرواسکتاہےاوراس میں اللہ پاک کااسم مبارک انگوٹھی پر کَنْدَہ کروانا بغیر کراہت کے جائزہے، کیونکہ نبی  کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگوٹھی پر”محمدرسول اللہ “نقش کروایااوراسلاف کرام میں سے بہت سے اللہ کے نبیوں ،علماء اوران کے علاوہ لوگوں نے اپنی انگوٹھیوں پرنقش کروایا،امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ اپنی انگوٹھی پریہ الفاظ(حسبی اللہ ونعم الوکیل) نقش کروائے اور ہمارے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ انہوں نے اپنی انگوٹھی پریہ الفاظ (اللہ ثقتی محمد بن إدریس)کندہ یعنی  نقش کروائے۔

(شرح البخاری للسفیری،المجلس الحادی الثلاثون، جلد2،صفحہ110،دار الکتب العلمیه، بیروت )

    مجد الدين ابو الفضل،حضرت عبد الله بن محمود موصلی حنفی رحمۃ اللہ علیہ  (المتوفى: 683هـ)”الاختیارلتعلیل المختار“میں تحریرفرماتے ہیں:”ويجوز أن ينقش عليه اسمه أو اسما من أسماء اللہ تعالى لتعامل الناس ذلك من غير نكير“ یعنی :انگوٹھی پراپنانام یااللہ تعالیٰ کے اسمائے مبارکہ میں سے کوئی اسم کَنْدَہ یعنی نقش کروانا،جائزہے کہ اس میں لوگوں کا بغیرکسی انکارکےتعامل ہے۔

(الاختيار لتعليل المختار،جلد4،صفحہ159، مطبعة الحلبي،القاهره¬)

    صدرالشریعہ ،بدرالطریقہ، مفتی امجدعلی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی تحریرفرماتے ہیں:” انگوٹھی پر اپنا نام کندہ کراسکتا ہے اوراﷲتعالیٰ اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کا نام پاک بھی کندہ کراسکتا ہے،مگر ”محمد رسول ﷲ“یعنی یہ عبارت کندہ نہ کرائے کہ یہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی انگشتری پر تین سطروں میں کندہ تھی، پہلی سطر محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم)، دوسری رسول، تیسری اسم جلالت اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمادیا تھا کہ کوئی دوسرا شخص اپنی انگوٹھی پر یہ نقش کندہ نہ کرائے۔ نگینہ پر انسان یا کسی جانور کی تصویر کندہ نہ کرائے ۔ “

     (بھارشریعت،جلد3،صفحہ427، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

    علامہ  شیخ ابراہیم حلبی رحمۃ اللہ علیہ ”غنیۃ المستملی   شرح منیۃ المصلی “میں تحریرفرماتے ہیں:”یکرہ دخول المخرج ای الخلاء وفی اصبعہ خاتم فیہ شیئ من القرآن اومن اسمائہ تعالی، لمافیہ من ترک التعظیم وقیل لایکرہ ان جعل فصلہ الی باطن الکف ولوکان مافیہ شیئ من القرآن اومن اسمائہ تعالی فی جیبہ لاباس بہ وکذا لوکان ملفوفا فی شیئ والتحرز اولی“یعنی : مخرج یعنی بیت الخلا میں داخل ہونا مکروہ ہے جب اس کی انگلی میں ایسی انگوٹھی ہو جس پر قرآن میں سے کچھ (کلمات) یا اللہ تعالیٰ کا کوئی اسم مبارک (لکھا ہوا) ہو، کیونکہ اس میں ترکِ تعظیم ہےاور کہا گیا ہے کہ اگر اس کا نگینہ ہتھیلی کی طرف کرے ،تو مکروہ نہیں اور اگر اس کی جیب میں کوئی ایسی چیز ہو جس میں قرآن پاک کا کچھ حصہ  ہویااللہ تعالیٰ کے اسمائےگرامی  میں سے کوئی اسم مبارک ہو، تو کوئی حرج نہیں اوراسی طرح اگریہ  اسماء وغیرہ کسی چیز میں لپیٹے ہوں، توکوئی حرج نہیں ، لیکن بچنا زیادہ بہتر ہے۔

 (غنیۃ المستملی   شرح منیۃ المصلی،صفحہ53،مطبوعہ کوئٹہ)

    امام اہلسنت اعلیٰ حضرت الشاہ احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن تحریرفرماتے ہیں:”وحاصل مسئلہ آنکہ ہرکہ دردست او خاتمی ست کہ بروچیزے ازقرآن یا ازاسمائے معظمہ مثل نامِ الهی یانام قرآن عظیم یااسما انبیاء یاملائکہ علیهم الصلاۃ والثنا نوشتہ است اومامورست کہ چوں بخلارود خاتم ازدست کشیدہ بیرون نہد افضل ہمین ست واگر خوف ضیاع باشدد رجیب انداز دیا بچیزے دگربپوشد کہ اینہم رواست اگرچہ بے ضرورت احترازو اولٰی ست اگر ازینہا ہیچ نکرد وہمچناں درخلا رفت مکروہ باشد علامہ ابراهیم حلبی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ درغنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی زیرہمیں عبارت مذکور فرماید ،’’یکرہ دخول المخرج ای الخلاء وفی اصبعہ خاتم فیہ شیئ من القرآن اومن اسمائہ تعالی لمافیہ من ترک التعظیم وقیل لایکرہ ان جعل فصلہ الی باطن الکف ولوکان مافیہ شیئ من القرآن اومن اسمائہ تعالی فی جیبہ لاباس بہ وکذا لوکان ملفوفا فی شیئ والتحرز اولی “درمراقی الفلاح ست یکرہ دخول الخلاء ومعہ شیئ مکتوب فیہ اسم اللہ او قرآن ‘‘یعنی: حاصل مسئلہ یہ ہے کہ جس کے ہاتھ میں ایسی انگوٹھی ہو جس پر قرآن پاک میں سے کچھ (کلمات) یا متبرک نام جیسے اللہ تعالیٰ کا اسم مبارک یا قرآن حکیم کا نام یا اسمائے انبیاء وملائکہ علیہم الصلوۃ والثناء (لکھے) ہوں ،تو اسے حکم ہے کہ جب وہ بیت الخلاء میں جائے تو اپنے ہاتھ سے انگوٹھی نکال کر باہر رکھ لے بہتر یہی ہے اور اس کے ضائع ہونے کا خوف ہو، تو جیب میں ڈال لے یا کسی دوسری چیز میں لپیٹ لے کہ یہ بھی جائز ہے، اگر چہ بے ضرورت اس سے بچنا بہتر ہے، اگر ان صورتوں میں کوئی بھی بجانہ لائے اور یوں ہی بیت الخلاء میں چلاجائے ،تو ایسا کرنا مکروہ ہے۔ علامہ ابراہیم حلبی رحمۃ اللہ علیہ نے غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی میں اسی عبارت مذکور کے تحت فرمایا:مخرج یعنی بیت الخلا میں داخل ہونا مکروہ ہے جب اس کی انگلی میں ایسی انگوٹھی ہو، جس پر قرآن میں سے کچھ (کلمات) یا اللہ تعالیٰ کا کوئی اسم مبارک (لکھا ہوا) ہو، کیونکہ اس میں ترکِ تعظیم ہے اور کہا گیا ہے کہ اگر اس کا نگینہ ہتھیلی کی طرف کرے ،تو مکروہ نہیں اور اگر اس کی جیب میں کوئی ایسی چیز ہو جس میں قرآن پاک کا کچھ حصہ اللہ تعالیٰ کا اسم گرامی ہو، تو کوئی حرج نہیں اسی طرح اگر کسی  لفافے  میں بند ہو، تو بھی حرج نہیں، لیکن بچنا زیادہ بہتر ہے۔ مراقی الفلاح میں ہے: جس آدمی کے پاس کوئی ایسی چیز ہو جس میں اللہ تعالیٰ کا نام مبارک یا قرآن پاک کی کوئی آیت لکھی ہو، تو اس کے لیے بیت الخلاء میں داخل ہونا مکروہ ہے۔

    علامہ طحطاوی درحاشیہ ش فرمود، لماروی ابوداود والترمذی عن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ قال کان رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اذادخل الخلاء نزع خاتمہ ای لان نقشہ محمد رسول اللہ  ۔ قلت بل رواہ الاربعۃ وابن حبان والحاکم وبعض اسانیدہ صحیح ثم قال اعنی الطحطاوی قال الطیبی فیہ دلیل علی وجوب تنحیۃ المستنجی اسم اللہ تعالٰی واسم رسولہ والقرآن ۔وقال الابھری وکذا سائر الرسل وقال ابن حجر :استفید منہ انہ یندب لمرید التبرز ان ینحی کل ماعلیہ معظم من اسم اللہ تعالٰی اونبی اوملک فان خالف کرہ لترک التعظیم۔ وھوالموافق لمذھبنا کمافی شرح المشکٰوۃ“علامہ طحطاوی نے اس کے حاشیہ میں فرمایا :کیونکہ امام ابوداؤد اورترمذی رحمہما اللہ نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء میں جاتے وقت انگوٹھی اتارلیتے، کیونکہ اس میں’’محمد رسول اللہ‘‘منقش تھا۔ میں کہتا ہوں بلکہ اسے چاروں محدثین (امام ترمذی، امام ابوداؤد، امام نسائی، امام ابن ماجہ رحمہم اللہ) ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا ہے اور اس کی بعض سندیں صحیح ہیں۔ پھر امام طحطاوی نے فرمایا: طیبی نے کہا ہے کہ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ استنجاء کرنے والا اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اسم گرامی نیز قرآن پاک کو الگ کردے اور ابہری نے کہا: اسی طرح باقی تمام رسولوں کے نام بھی الگ کردے۔ ابنِ حجر عسقلانی فرماتے ہیں: اس سے معلوم ہواکہ قضائے حاجت کا ارادہ کرنے والے کے لیے مستحب ہے کہ ہر وہ چیز الگ کردے جس میں کوئی قابلِ تعظیم بات مثلاً اللہ تعالیٰ، کسی نبی یا فرشتے کا نام ہو ،اگر اس کے خلاف کرے گا، تو ترکِ تعظیم کی وجہ سے مکروہ ہوگا۔ یہی بات ہمارے مذہب کے موافق ہے۔ جیسا کہ شرح مشکوٰۃ میں ہے۔‘‘

(فتاوی رضویہ،جلد4،صفحہ58283،رضافاونڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم