دوکان پر کوئی شخص چیز رکھ کر بھول گیا ، تو اب کیا حکم ہے ؟

مجیب:مولانا عرفان احمد مدنی زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Sar-7071

تاریخ اجراء:03صفرالمظفر1442ھ/21ستمبر2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے پاس دوکان میں کوئی کسٹمر مال خریدنے آیااورکسی وجہ سے اپنی کوئی چیزہمارے پاس رکھواگیاکہ میں آگے کسی اوردوکان سے کوئی دوسری چیزخریدکرلاتاہوں،آپ اسے اپنےپاس رکھ لیں،توہم اس کی وہ چیزاپنے پاس رکھ لیتے ہیں،ان میں سے بعض لوگ توواپس اپنی چیزلے جاتے ہیں ،لیکن بعض ایسے بھی ہوتےہیں کہ وہ پھرواپس ہی نہیں آتے،سمجھ میں یہی آتاہے کہ وہ بھول جاتے ہوں گے یاپھرکسی دوسرے کام کی غرض سے دورنکل جاتے ہوں گے اورپھرواپس آنے کی تکلیف  نہ کی۔اب مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں بھی علم نہیں ہوتاکہ وہ شخص کون تھا،کہاں کارہنے والاتھا۔توایسی صورت میں ہم دوکانداراس چیزکاکیاکریں؟وہ چیز بعض اوقات ایسی بھی ہوتی ہے کہ جلدخراب ہوجائے گی،اس کوسنبھالنامشکل ہوتاہے۔ جیسے پھل یاسبزی وغیرہ کہ یہ  اگرایک دودن تک دوکان میں پڑی رہے ،توخراب ہوجاتی ہے ۔توہمیں بتائیں کہ اس کاکیاکریں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    دریافت کی گئی صورت میں اس چیزکی شرعی حیثیت ودیعت(امانت) کی ہے اورودیعت(امانت) کاحکمِ شرعی یہ ہے کہ اگرچیزکامالک نہ ملے اورنہ ہی اس کے بارے میں معلوم ہوسکے کہ کہاں سے آیاتھا،کہاں کارہنے والاہےاورزندہ بھی ہے یافوت ہوچکاہے ،تواس چیزکی ہمیشہ حفاظت کرنی ہوگی کہ اسے صدقہ بھی نہیں کرسکتے،ہاں اگروہ چیزجلدخراب ہونے والی ہو،تواسے فروخت کر کے اس کی قیمت اپنے پاس محفوظ رکھی جاسکتی ہےاوراگرمالک آجائے، تواسے یااس کے فوت ہونے کاعلم ہونے کی صورت میں اس کے ورثاء کووہ چیزدے دیں۔

    ودیعت کی تعریف بیان کرتے ہوئے علامہ علاؤالدین حصکفی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:’’تسلیط الغیر علی حفظ مالہ صریحااو دلالۃ (ورکنھا الإیجاب صریحا)کأودعتک(اوکنایۃ) (أو فعلا) کما لو وضع ثوبہ بین یدی رجل ولم یقل شیئا فھو إیداع(والقبول من المودع صریحا)کقبلت(أو دلالۃ)کما لو سکت عند وضعہ فإنہ قبول دلالۃ کوضع ثیابہ فی حمام بمرأی من الثیابی ملتقطاً  ‘‘ترجمہ:کسی کوصراحتا یا دلالۃً اپنے مال کی حفاظت پرمقرر کرناودیعت کہلاتاہےاس کا رکن ہے ایجاب کا ہونا،چاہے صراحتا ہومثلاًیوں کہے میں نے تمہیں ودیعت دی ، یا کنایۃً ہو یا فعلاً ہو جیسے کسی شخص کے سامنے (حفاظت میں دینے کے طور پر)اپنا کپڑا رکھا اور کچھ نہ کہا تو یہ ایداع ہے(یعنی امانت رکھواناہے)اور( دوسرا رکن ہے )قبول کا پایا جانا ، چاہے صراحتاً ہو مثلاً وہ یوں کہے کہ میں نے ودیعت قبول کی یا دلالۃً ہومثلاً کسی کے سامنے (حفاظت میں دینے کے طور پر) کوئی چیز رکھی تو وہ خاموش رہا تو یہ دلالۃً قبول کرنا ہے۔ جیسے حمام میں لباس کے منتظم کے سامنے کپڑے رکھنا۔

 (درمختار مع ردالمحتار، کتاب الایداع، ج08، ص526، مطبوعہ کوئٹہ)

    مالک نہ ملنے کی صورت میں مالِ ودیعت کے بارے میں فتاوی عالمگیری میں ہے: ’’غاب المودع ولا یدری حیاتہ  و لا  مماتہ   یحفظھا     ابدا   حتی یعلم       بموتہ      و        ورثتہ ،کذا      فی  الوجیز    للکردری           و      لایتصدق            بھابخلاف اللقطۃ‘‘ترجمہ:ودیعت رکھنے والا غائب ہوگیا اورمعلوم نہیں زندہ ہے یامر گیا،توودیعت(امانت)کوہمیشہ محفوظ ہی رکھناہوگا،یہاں تک کہ اس کی موت اورورثاء کا علم ہوجائے جیساکہ الوجیز للکردری میں ہے۔ودیعت کو صدقہ نہیں کرسکتا بخلاف لقطہ کے۔

(فتاوی عالمگیری،کتاب الودیعۃ،الباب السابع فی ردالودیعۃ،ج4،ص354،مطبوعہ کوئٹہ )

    اورجلدخراب ہونے والی چیزکے بارے میں محیط برہانی میں ہے:’’إذا کانت الودیعۃ شیئا یخاف علیہ الفساد، وصاحب الودیعۃ غائب، فإن رفع المودع الأمر إلی القاضی حتی یبیعہ جاز وھو الأولی، وإن لم یرفع حتی فسدت،لا ضمان علیہ،لأنہ حفظ الودیعۃ علی ما أمر بہ‘‘ترجمہ: اگرودیعت ایسی چیز ہے کہ جس کے رکھنے سے اس کے خراب ہونے کا اندیشہ ہے اور مالک ودیعت غائب(موجود نہیں)ہے، توپھراگرمودع یعنی جس کے پاس امانت رکھی گئی ہے وہ اسے بیچنے کے لیے قاضی تک معاملہ لے جائے ،تو یہ جائز ہے اور یہی اولیٰ ہےاوراگر ایسا نہ کیا گیایہاں تک کہ وہ چیز خراب ہوگئی، تو تاوان لازم نہیں آئے گا،کیونکہ اس نے ودیعت کی حفاظت اسی طریقے پرکی ہے جس کااسے حکم دیاگیاتھا۔ 

(محیط برھانی ،کتاب الودیعۃ،الفصل الرابع،ج08،ص296،مطبوعہ مکتبہ ادارۃ القرآن)

    اورقاضی نہ ہونے کی صورت میں خودہی فروخت کرکے رقم محفوظ کرنے کے بارے میں فتاوی عالمگیری میں ہے:’’وإن لم یکن فی البلد قاض باعھاوحفظ ثمنھالصاحبھا،کذا فی السراج الوھاج‘‘ترجمہ:اوراگرکسی شہر میں قاضی نہ ہو تو وہ خود اس کو بیچ کر اس کی قیمت مالک کے لیے محفوظ رکھے، جیساکہ السراج الوہاج میں ہے۔

    (فتاوی ھندیہ،کتاب الودیعۃ،الباب الرابع،ج04،ص344،مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم