سات سال پہلے گری پڑی چیز ملی اور تشہیر ( اعلان وغیرہ ) سے پہلے ہی صدقہ کر دی تو اب کیا حکم ہے ؟

مجیب:مولانا ساجد مدنی زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: UK-71

تاریخ اجراء:05ذوالحجۃالحرام1441ھ/27جولائی2020ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان ِشرع متن اس مسئلے کے بارے میں کہ زید ریلوے میں جاب کرتا ہے، آج سے سات سال پہلے اس طرح واقعہ پیش آیا کہ زید رات دو بجے کے قریب گھر آنے لگا ، تو اسٹیشن پر کسی کا بَیگ ( سوٹ کیس ) ملا ۔ اس وقت وہاں نہ تو اسٹاف موجود تھا ،نہ ہی کوئی اور شخص موجود تھا ، تو مالک کو پہنچانے کی نیت سے اٹھانے کی بجائے  اس نے اپنے لیے اٹھا لیا ۔ گھر آ کر دیکھا، تو اس میں کپڑے تھے، جن کی مالیت اس وقت کے حساب سے بیگ سمیت تقریباًبارہ ہزار روپے ہو گی ۔ بیگ کی نہ تو تشہیر کی اور نہ ہی مالک کو تلاش کیا اور چند دن بعد سارا سامان بغیر تشہیر کیے فقراء میں تقسیم کر دیا ۔ اب چونکہ مالک کا ملنا ایک طرح سے ناممکن ہے ، لہذا اب اس کے لیے کیا حکم ہے ؟ تشہیر کی جائے اور اس کے بعد  اس سامان کے برابر مالیت دوبارہ صدقہ کی جائے ؟ یا کیا کیا جائے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    سوال میں بیان کردہ صورت کے مطابق زید پر لازم ہے کہ وہ توبہ کرے ،کیونکہ ایک تو اس نے  لقطہ (گرا پڑا مال) اپنے لیے اٹھا یا اور یہ شرعاً جائز نہ تھااور دوسرا یہ کہ اس نے مالک کو تلاش کرنے کی کوشش نہ  کی،  حالانکہ اس صورت میں یہ اس کی شرعا ًذمہ داری تھی کہ وہ ہر ممکن کوشش کر کے  مالک تک چیز پہنچاتا۔بہر حال  چونکہ اب اتنے عرصے  یعنی سات سال بعد مالک کے ملنے کی امید نہیں اس لیے اب تشہیر و اعلان کا حکم نہیں، یونہی جب زیدوہ بیگ صدقہ کر چکا ،تو اب مزید کوئی مال صدقہ کرنے کا حکم  بھی نہیں ،البتہ زید کو چاہیے کہ وہ یہ نیت رکھے کہ اگر کبھی  بھی بیگ کا مالک ملا اور وہ اس صدقہ پر راضی نہ ہوا ،تو میں اسے اس کا تاوان ادا کر کے یا معافی مانگ کر اسے  راضی کر وں گا۔

    تفصیل کچھ یوں ہے کہ گرا پڑا مال مالک تک پہنچانے  کی نیت سے اٹھانا تو جائز ہوتا ہے، لیکن اپنے لیے اٹھا لینا شرعا ً گناہ ہے  اوریہ  غصب کے حکم میں ہوتا ہے۔ پھراگر کسی نے اپنے لیے مال اٹھا لیا  ہو ،تو اب واپس وہاں رکھ دینے سے وہ بری نہیں ہوتا، بلکہ اس  پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ چیز مالک تک پہنچائےیعنی  مالک کو تلاش کرنا اور اس تک چیز پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرنا اس کی ذمہ داری بن جاتی ہے ۔

    پھر  مکمل کوشش کے بعد بھی جب  مالک  نہ ملے  اورملنے کی امید  بھی نہ رہے ، تواب  اخروی نجات کی صورت شریعت نے یہ بیان کی ہے کہ وہ چیز اصل مالک کی طرف سے  صدقہ کر دے۔ یہاں مالک کی طرف سے صدقہ کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ صدقے کا ثواب فی الحال مالک کو مل جائے گا ،بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ  یہ ثواب اللہ عزوجل کے پاس ذخیرہ ہوجائے گا اور امید ہے کہ اللہ عزوجل کل قیامت والے دن اس ثواب کے بدلے  اصل مالک کو راضی فرما دے گا۔لہذا   جب وہ ایسا کر دے گا،اس شخص پر آخرت میں کوئی مطالبہ نہ ہوگا ۔ البتہ اس کو یہ نیت رکھنی ہوگی کہ مالک اگر دنیا میں مل گیا اور صدقہ پر راضی نہ ہوا ،تو  وہ اسےتاوان ادا کر کے راضی کرے گا۔

    لقطہ اپنے لیے اٹھانے سے متعلق در مختار میں ہے : ”و فی البدائع : و ان اخذھا لنفسہ حرم لانھا کالغصب “ ترجمہ : اور بدائع الصنائع میں ہے کہ اگر ( گری پڑی چیز کو ) اپنے لیے اٹھایا ، تو حرام ہے ، کیونکہ یہ غصب کی طرح ہے ۔

مزید اس  سے متعلق رد المحتار میں ہے :”ان اخذھا لنفسہ لم یبرا من ضمانھا الا بردھا الی صاحبھا کما فی الکافی“ترجمہ : اگر اسے اپنے لیے اٹھایا، تو اس کے تاوان سے بَری نہیں ہو گا ، سوائے اس کے کہ اس کے مالک کو واپس کرے جیسا کہ کافی میں ہے ۔                       

                           (درمختار مع رد المحتار ، کتاب اللقطۃ ، جلد4 ، صفحہ276، دار الفکر، بیروت)

    درمختار میں ہے : ” (عليه ديون ومظالم جهل أربابها وأيس) من عليه ذلك (من معرفتهم فعليه التصدق بقدرها من ماله وإن استغرقت جميع ماله) هذا مذهب أصحابنا لا نعلم بينهم خلافا كمن في يده عروض لا يعلم مستحقيها اعتبارا للديون بالأعيان (و) متى فعل ذلك (سقط عنه المطالبة) من أصحاب الديون (في العقبي) مجتبى. “ترجمہ: کسی پر دوسروں کے قرضے اور ظلما ًلیےہوئے مال لازم ہیں، لیکن ان کے مالکوں کا پتا نہیں اوراسے  مالکوں کے ملنے کی امید بھی نہیں رہی، تو اب اس پر اتنی مقدار میں اپنے مال میں سے صدقہ کرنا لازم ہے، اگرچہ وہ اس کے تمام مال سے زیادہ مقدار بن جائے۔ یہ ہمارے اصحاب کا مذہب ہے ۔ہم  اپنے اصحاب کے مابین اس چیز میں کوئی اختلاف نہیں جانتے  اور یہ اس شخص کی طرح ہے کہ  جس کے قبضے میں کوئی ایسا سامان ہے ،جس کے مستحقین کا علم نہیں (اور اسے  وہ سامان بعینہ صدقہ کرنے کا حکم ہوتا ہےلہذا)دیون کو اعیان پر قیاس کرتے ہوئے(دیون میں بھی یہی حکم ہے) اور جب اس نے یہ کام کرلیا،تو اب آخرت میں   قرضوں کے مالکین کی طرف سے اس شخص پر کوئی مطالبہ نہ رہے گا، مجتبی۔                                       

(در مختار ، کتاب اللقطۃ، جلد4،صفحہ283، دار الفکر، بیروت)

    صدقہ کرنے کا حکم اسی وقت ہے، جب اصل مالک کا یا اس کے ورثاء کا علم نہ ہو اور نہ ہی ان کے ملنے کی امید ہو، ورنہ اگر ان کا علم ہے یاملنے کی امید ہے، تو پھر صدقہ کرنے کی اجازت نہیں ۔چنانچہ طحطاوی  علی الدر میں ہے : ” اما اذا علمھم فلا یبرا دنیا و اخری الا بالدفع الیھم وعلم ورثتھم کعلمھم  اما اذا کان یرجو المعرفۃ فلا یتصدق “ترجمہ: بہر حال اگر اسے مالکین کا علم ہے، تو اب یہ شخص دنیا اور آخرت میں بری نہیں ہوسکتا ،مگر یہ کہ  مال ان کے مالکوں تک پہنچا دےاور ورثاء کا علم ہونا ایسا ہی ہے ،جیسے اصل مالکوں کا  علم ہے۔ بہر حال اگر مالک ملنے کی امید ہے تو اب یہ شخص مال کو صدقہ نہیں کر سکتا۔

    صدقہ کرنے سے اصل مالک کو ثواب ملے گا یا نہیں اس کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ طحطاوی مزید لکھتے ہیں:”ولیس المراد انہ یتصدق لیکون ثوابھا لاربابھا لعدم الاذن منھم بالصدقۃ وانما ھو ذخیرۃ عند اللہ  تعالی عسی اللہ ان یرضی خصماء بذلک“ ترجمہ: اس سے یہ مراد نہیں کہ وہ اس لیے صدقہ کر رہا ہے کہ یہ ثواب مالکین کو ملے گا، کیونکہ ان کی طرف سے تو صدقہ کرنے کی اجازت ہی نہیں ہے(لہذا فی الحال انہیں ثواب نہیں ملے گا،بلكہ یہ صدقہ اس طور پر ہے کہ ) یہ ثواب اللہ عزوجل کے پاس ذخیرہ ہو جائے گا اور امید ہے کہ اللہ عزوجل(قیامت کے دن ) اس ثواب کے بدلےمخالف فریق کو راضی فرما دے گا۔

 (طحطاوی علی الدر،کتاب اللقطۃ، ج2، ص504، کوئٹہ)

    کسی کا مال اپنے  ذمے لازم ہوجائے، تو مالک کوتلاش کر کے اس تک پہنچانا بھی شرعی ذمہ داری بن جاتی ہے۔چنانچہ امام اہل سنت  علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا   کہ ایک شخص نے گاڑی پر سفر کیا، لیکن کرایہ نہ دیا او رگھر چلا گیا،تو اب اسے کیا کرنا چاہیے ؟ اس کے متعلق امام اہل سنت سیدی اعلیٰ حضرت  امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ نے جواب دیا: ”اسٹیشن پرجانے والی گاڑیاں اگرکوئی مانع قوی نہ ہو،تو ہرگاڑی کہ آمدورفت پرضرورآتی جاتی ہیں۔ اگرزیداسٹیشن پرتلاش کرتا، ملناآسان تھا، اب بھی خودیابذریعہ کسی متدیّن معتمد کے تلاش کرائے ،اگرملے دے دئیے جائیں، ورنہ جب یاس ونا اُمیدی ہوجائے اس کی طرف سے تصدّق کردے، اگرپھركبھی وہ ملے اور اس تصدّق پرراضی نہ ہو،تو اسے اپنے پاس سے دے۔“

    (فتاوی رضویہ،جلد25، صفحہ55، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

    یہاں ایک اشکال یہ ہے کہ جب زید نے مالک کی تلاش سے پہلے ہی مال صدقہ کر دیا ،تو اب کیا زید پر اس مال کا تاوان یا قیمت دوبارہ صدقہ کرنی ہوگی یا نہیں؟ کیونکہ جب اس نے مال صدقہ کیا اس وقت تو اسے صدقہ کرنے کی شرعا  اجازت ہی نہ تھی۔

تو اس کا جواب یہ ہے کہ اب   زید پر  مزید کوئی مال وغیرہ صدقہ کرنا لازم نہیں ،کیونکہ اگرچہ اس وقت اسے صدقہ کرنے کی(شرعا) اجازت نہ تھی، لیکن بہر حال مالک نہ ملنے  کی صورت میں اس مال کا مصرف یہی تھا  کہ صدقہ کر دیا جائے یعنی کسی شرعی فقیر کو دے دیا جائے ،تو چونکہ زید پہلے ہی اس فعل پر عمل کر چکااور مال کو اس کے مصرف تک پہنچا چکا،  اس لیے اب مزید اس پر کچھ تاوان وغیرہ لازم نہیں ۔

    اوپر مذکور درمختار کی عبارت ” سقط عنہ المطالبۃ “کے تحت علامہ طحطاوی  لکھتے ہیں:” کانہ واللہ تعالی اعلم لانہ بمنزلۃ المال الضائع والفقراء مصرفہ عند جھل اربابہ وقد علم اللہ تعالی صدق نیتہ فی قضاء ما علیہ وایدہ ظاھرا بالدفع الی الفقراء“ترجمہ: ( یہ مطالبہ اس لیے ساقط ہو گا کہ)گویا کہ واللہ تعالی  اعلم   ،کیونکہ یہ اس مال کے قائم مقام ہے کہ جس کا مالک معلوم نہیں  اور کسی مال کا مالک معلوم نہ ہو تو اس کا مصرف فقراء ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی صدق نیت کو جانتا ہے کہ  یہ بندہ اپنے اوپر آنے والا دین ادا کرنا چاہتا ہے اور اس نے مال فقیر کو دے کر اپنی نیت کی تائید بھی کی ہے (تو امید ہےاللہ تعالیٰ اس سے مؤاخذہ نہیں فرمائے گا)۔

         (طحطاوی علی الدر،کتاب اللقطۃ، جلد2، صفحہ504، مطبوعہ کوئٹہ)

    اس کی نظیر امام اہل سنت علیہ الرحمۃ کا ایک فتوی بھی ہے کہ ایک رنڈی نے تو بہ کی اور اپنا  حرام مال اپنی ماں بہن وغیرہ کو دے دیا اور کہا مجھے یہ درکار نہیں ، میں نے تمہیں چھوڑا، تو اس کے متعلق امام اہل سنت سے سوال ہوا، جس پر آپ نے  اولا ثابت فرمایا کہ یہ مال غصب کے حکم میں ہے اوراب چونکہ اصل  مالکان کا علم نہیں اس لیے تصدق کا ہی حکم تھااور اس کی ماں بہن وغیرہ تصدق کا محل ہیں ۔ پھر فرمایا:” پس اگر اس عورت نے وہ مال اُنہیں دے ڈالا تھا اور اُنہوں نے قبضہ کرلیا جب توظاہر ہے کہ صدقہ اپنے محل کو پہنچ گیا ،اُس کی ماں بہنیں اُس کی مالک ہوگئیں اور وہ مال اُن کے لیے طیب ہوگیااور اگردے ڈالنانہ تھا ،بلکہ صرف آپ اُس ناپاک مال سے بے علاقہ ہونا منظور تھا اور ’’تم کو چھوڑا‘‘کے یہ معنی تھے کہ تم ہنوز اسی ناپاک پیشے ميں ہو تم جانو اوریہ ناپاک مال مجھے اس سے تعلق نہیں اس صورت میں بھی، جبکہ انہوں نے قبضہ کرلیا، تو ایک مال ضائعہ حق فقراء تھا جس پر فقراء کاقبضہ ہوگیا۔“

 (فتاوی رضویہ، جلد23، صفحہ549، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم