Zinda Insaan Ki Taraf Se Umrah Karna

زندہ انسان  کی طرف سے عمرہ کرنا

مجیب:محمد بلال عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-1149

تاریخ اجراء:13ربیع الاول1444ھ/10اکتوبر2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   بعض لوگوں  کا یہ ذہن ہو تا ہے کہ  عمرہ   مرحوم کی طرف سے  کر سکتے ہیں زندہ کی طرف سے  نہیں  زندہ کی طرف سے  طواف  ہوتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اپنےکسی بھی نیک کام مثلا حج ، عمرہ ، طواف ،روزہ، صدقہ و غیرہ کا ثوب اپنے والدین اور دوسرے مسلمانوں کو بخش سکتے ہیں خواہ وہ حیات ہوں یا وفات پاچکے ہوں ۔  لہذاجس  طرح  عمرہ  فوت شدہ شخص کو ثواب پہنچانے کی نیت سے کیا جا سکتا ہے اسی طرح زندہ کی طرف سے بھی عمرہ  کیا   جا سکتا ہے ۔سوال میں جو بات  بیا ن کی  گئی ہے کہ عمرہ زندہ کی طرف سے نہیں ہو سکتا ،بے جا بات  ہے ا س کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ،

   حدیث پاک میں ہے: "عن  ابی رزین ا لعقيلي انه اتى النبي صلى الله تعالى عليه وآله وسلم فقال: يا رسول الله (صلى الله علیه وسلم) ان ابی شیخ كبير لا يستطيع الحج ولا العمرة ولا الظعن، قال: حج عن ابيك و اعتمر ۔ " حضرت ابو رزین عقیلی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ،عرض کیا: یارسول اللہ (صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم ) میرے والد بہت بوڑھے ہیں جو نہ حج و عمرہ کی طاقت رکھتے ہیں اور نہ سوار ہونے کی ۔ ارشاد فرمایا: اپنے باپ کی طرف سے حج اور عمرہ کرو۔"(جامع الترمذي، ص 309، مطبوعہ: مکتبہ رحمانیہ، لاہور)

   مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فتاوی امجد یہ میں فرماتے ہیں :" ایصال ثواب مستحب ہے۔ اور جو کچھ نیک کام کیا ہو اور اس کا ثواب کسی کو پہنچاناچاہتا ہو تو یہ دعا کرے کہ الہی اسے قبول فرما اور اس کا ثواب فلاں فلاں کو پہنچا۔ بلکہ بہتر یہ ہے کہ جمیع مومنین و مومنات کوپہنچائے۔امید کہ سب کو پورا پورا |ثواب ملے اور اس کے ثواب میں کوئی کمی نہ ہو بلکہ سب کے مجموعے کے برابر ہے ۔ ردالمحتار میں ہے :" صرح علماو نافي باب الحج عن الغيربان للانسان ان يجعل ثواب عمله لغيره صلوة او صوما أو صدقة أو غيرها كذافي الهدايه بل في زكاة التتارخانيه عن المحيط الافضل لمن يتصدق نقلا ان ينوى لجميع المومنين والمؤمنات لانها تصل اليهم ولا ينقص من أجره شي وهو مذهب أهل السنة والجماعة “ ہمارے علماء نے باب الحج عن الغیر میں اس کی تصریح کی ہے کہ انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنے عمل کا ثواب دوسرے کو بخش دے یہ عمل نماز ہو روزہ ہو صدقہ ہو یا کچھ اور ہو ہدایہ میں بھی یہ ہی ہے۔ بلکہ تتارخانیہ کی کتاب الزکوۃ میں محیط سے یہ نقل کیا کہ ایصال ثواب کرنے والے کے لیے افضل یہ ہے کہ تمام مومنین و مومنات کی نیت کرے اس لیے کہ ثواب سب کو پہنچے گا اور اس کے ثواب میں کوئی کمی نہ ہو گی یہ ہی اہلسنت والجماعت کا مذہب ہے۔ اس میں ہے : " وفی البحر من صام وصلی او تصدق وجعل ثوابه لغيره من الاموات والاحياء جاز ويصل ثوابها اليهم عند أهل السنة والجماعة كذافي البدائع ثم قال وبهذا علم أنه لا فرق بين أن يكون المجعول له ميتا و حياو الظاهر انه لا فرق بين الفرض والنفل  بحر الرائق میں ہے کسی نماز پڑھی اور روزہ ر کھا خیرات کیا اور اس کا ثواب کسی مردے یا زندہ کو بخش دیا یہ جائز ہے اور ان کو ثواب ملے گا اہلسنت والجماعت کے نزدیک بدائع میں بھی ایسے ہی ہے۔ پھر صاحب بحرنے فرمایا اس سے معلوم ہوا کہ جسے ثواب بخشا گیا وہ زندہ ہو یامردہ ہو کوئی فرق نہیں۔ اور ظاہر ہے کہ اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جس عمل کا ثواب بخشا گیاوہ نفل ہو یا فرض۔" (فتاوی امجد یہ ، ج 1 ، حصہ،01،ص337/336، مکتبہ رضویہ ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم