Walid Ne Zameen Bech Kar Raqam Bete Ko De Di To Hajj Kis Par Farz Hoga ?

والد صاحب نے زمین بیچ کر رقم بیٹے کو دے دی، تو حج کس پر فرض ہوگا ؟

مجیب:مولانا محمد ماجد رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر: Web-1461

تاریخ اجراء: 18رجب المرجب1445 ھ/30جنوری2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   میرے والد محترم نے آج سے 5 سال قبل اپنی آبائی زمین کو بیچا جس کے عوض ان کے پاس تقریبا 50 لاکھ کی رقم آئی۔  انہوں نے وہ رقم مجھے اپنا گھر خریدنے کے لئے دے دی ،کیونکہ کہ ہم کرائےکے گھر میں رہتے تھے۔  چنانچہ میں نے اپنی کمپنی جس میں میں کام کرتا ہوں ان سے کچھ رقم قرض لے کر ان پیسوں میں ملا کر ایک گھر خرید لیا جس میں میرے والدین اور میں نے رہنا شروع کر دیا۔ میرا سوال یہ ہے کہ میرے والد نے جب زمین فروخت کی تو ان کے پاس اتنی رقم آئی کہ وہ حج کر سکتے تھے تو کیا ان پر حج کرنا فرض ہوا ۔ جب کہ انہوں نے وہ رقم ڈائریکٹ مجھے دے دی کہ میں ان پیسوں سے مکان خرید لوں اور کرایوں سے بچا جائے۔ تو اس کچھ عرصہ میں وہ رقم میری ملکیت میں رہی اور بعد میں اس رقم سے میں نے گھر خرید لیا جو کہ میرے نام پر ہے اور اس میں کچھ رقم بطورِ قرض میں نے اپنی کمپنی سے لی۔  تو کیا حج مجھ پر فرض ہوا یا میرے والد پر۔ اگر میرے والد پر ہوا تو اب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں، تو کیا ان کی جگہ حج بدل ادا کرنا ہو گا اور وہ ادا ہو جائے گا۔اور اگرمجھ پر فرض ہوا تو ، میرے لئے کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں اگر رقم اس وقت موجود تھی جب گورنمنٹ کی طرف سے حج کے فارم بھرے جارہے تھے یا پرائیوٹ حج کرنے  کی سہولت موجود تھی اور حج فرض ہونے کی دیگر شرائط بھی  پائی جارہی تھیں تو آپ کے والد پر حج فرض ہوچکا تھا  اور اگر ان دنوں رقم موجود نہیں تھی بلکہ پہلے ہی گھر خرید لیا گیا نیز اس کے علاوہ حج کی استطاعت کے برابر مال موجود نہیں تھا تو آپ کے والد پر حج فرض نہ ہوا اور اگر پہلی صورت تھی  تو ان پر حج فرض چکا تھا   مگر چونکہ انہوں نے وصیت نہیں  کی توآپ پر ان کی طرف سے حج بدل کروانا لازم نہیں البتہ اگر آپ ان کی طرف سے حج بدل کروادیں تو یہ ان کے لیے آخرت کی منازل میں آسانی  کا سبب بنے گا۔

   آپ کو جو رقم آپ کے والد نے دی اگر وہ ہبہ (Gift)تھی تو آپ اس رقم کے مالک بن گئے اور آپ پر سابقہ صورت یعنی حج کےفارم بھرنے کے دنوں میں وہ رقم آنے کی صورت میں حج فرض ہوا اور ہنوز وہ حج آپ پر لازم ہے اور اگر وہ رقم  آپ کے والد صاحب نے اس لیے دی تھی تاکہ آپ والد صاحب کے لیے گھر خرید لیں تو آپ اس رقم کے مالک نہیں ہیں اور اس کے علاوہ قدرِ استطاعت مال نہ ہونے کی صورت میں آپ پر حج  فرض نہ ہوا۔

   بہار شریعت میں ہے:’’روپیہ ہے جس سے حج کرسکتا ہے مگر مکان وغیرہ خریدنے کا ارادہ ہے اور خریدنے کے بعد حج کے لائق نہ بچے گا تو فرض ہے کہ حج کرے اور باتوں میں اُٹھانا گناہ ہے یعنی اس وقت کہ اُس شہر والے حج کو جارہے ہوں اور اگر پہلے مکان وغیرہ خریدنے میں اُٹھا دیا تو حرج نہیں۔‘‘      (بہار شریعت،جلد:1،صفحہ:1042،مکتبۃ المدینہ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم