Umrah Mein Saee Karne Se Pehle Halaq Kar Liya To Kya Hukum Hai?

عمرے میں سعی کرنے سے پہلے حلق کروا لیا تو کیا حکم ہے ؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Fsd-8236

تاریخ اجراء:29 رجب المرجب1444ھ/21فروری2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ اگرکوئی شخص عمرہ میں  لا علمی کی وجہ سے سعی کیے بغیر احرام کھولنے کی نیت سے سر منڈا کر احرام اُتار دے ،تو اس کا کیا کفارہ ہو گا،کیا دَم دینا پڑے گا یا دوبارہ عمرہ کرنا ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عمرے میں سعی کرنا واجب ہے اور اس سعی میں ایک واجب یہ ہے کہ حلق یا تقصیر سے پہلے حالتِ احرام میں سعی کی جائے اور سعی کرنے سے پہلے ہی حلق یا تقصیر کروا لینے سے دم لازم ہوجاتا ہے،لیکن اس سے سعی ساقط نہیں ہوتی،بلکہ اب بھی اس کی ادائیگی واجب ہی رہتی ہے، یعنی دم دینا بھی ضروری ہے اور رہ جانے والی سعی کرنابھی ضروری ہے،البتہ اب سعی کے لیے دوبارہ احرام باندھنا ضروری نہیں،بلکہ عمرہ کرنے والاجب سعی سے پہلےحلق کروا کر احرام کھول دے ،تو اب بغیر احرام کے عام لباس میں ہی سعی کرے گا۔

   اس تفصیل کےبعد پوچھی گئی صورت کا متعین جواب یہ ہے کہ جس شخص نے لا علمی کی  وجہ سے سعی کیے بغیر احرام اتارنے کی نیت سے سر منڈوایا اوراحرام اتار دیا ،اُس پر حدودِ حرم کے اندرایک  دم  ادا کرنا لازم ہو چکا اور اب حکم یہ ہے کہ وہ  سعی بھی  کرے اور دم بھی ادا کرے ، مکمل عمرہ کرنا لازم نہیں اور اب سعی کے لیے دوبارہ احرام باندھنابھی ضروری نہیں،بلکہ بغیر احرام کے عام لباس میں ہی سعی کرلے۔اوردَم سے مرادایک بکراہے،اِس میں  نَر، مادہ، دُنبہ، بھیڑ، نیز گائے یا اونٹ کا ساتواں  حصہ سب شامل ہیں، نیز اِس جانور کا حدودِ حرم میں ذبح ہونا شرط ہے، مزید یہ کہ اِس دم میں دئیے جانے والے جانور میں سے نہ تو   خود کچھ کھا سکتے ہیں اور نہ  ہی کسی غنی کو کھلا سکتے ہیں، بلکہ وہ صرف  محتاجوں کا حق ہے۔

   عمرے میں حلق یا تقصیر سے پہلے سعی کرنا واجب ہے،چنانچہ شمس الائمہ، امام سَرَخْسِی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:483ھ/1090ء) لکھتے ہیں:والسعي من ‌أعمال ‌العمرة فعليه أن يأتي به قبل التحلل بالحلق ترجمہ : اور سعی عمرے کے افعال میں سے ہے،لہٰذا عمرہ کرنے والے پر واجب ہے کہ حلق کے ذریعے احرام سے باہر نکلنے سے پہلے سعی کا واجب ادا کرے۔(المبسوط، جلد4، صفحہ52، مطبوعہ دارالمعرفہ، بیروت، لبنان)

   حلق یا تقصیر  سے پہلے سعی،حالتِ احرام میں کرنا واجب ہے،چنانچہ سعی کے واجبات بیان کرتے ہوئے علامہ شیخ رحمت اللہ بن عبد اللہ سندھی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:993ھ/1585ء) لکھتے ہیں:وکونہ فی حالۃ الاحرام فی سعی العمرۃ ترجمہ : اور عمرہ کی سعی کرنے والے کا حالتِ احرام میں ہونا واجب ہے ۔(لباب المناسک وعباب المسالک ،باب السعی بین الصفا و المروۃ   ،صفحہ 128،مطبوعہ دارقرطبہ)

   اورسعی سے پہلے حلق کروالینے سے دم واجب ہونے اور سعی ساقط نہ ہونے کے متعلق علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1014ھ/1605ء) لکھتے ہیں: یجب أن لا یحلّ بحلق أو تقصیر حتی یسعی بینھما فإنّہ لوخالفہ یجب علیہ دم ولا یسقط عنہ السعی اتّفاقاًترجمہ : عمرہ کرنے والے پر واجب ہے کہ جب تک سعی نہ کرلے ،حلق یا تقصیر کے ذریعے احرام نہ کھولے،پس اگر اس نے اس کی  مخالفت  کی(یعنی سعی سے پہلے حلق یا تقصیر کر کے احرام اتار دیا)،تو اس پر بالاتفاق دم واجب ہوگا اور سعی بھی ساقط نہیں ہوگی ۔ (شرح لباب المناسک مع حاشیۃ ارشاد الساری، باب السعی بین الصفا والمروہ،صفحہ248، مطبوعہ مکہ)

   مزید اسی میں لکھتے ہیں: لو طاف ثم حلق ثم سعی صحّ سعیہ وعلیہ دم لتحلّلہ قبل وقتہ وسبقہ علی أداء واجبہ ترجمہ: اگر عمرہ کرنے والے نے طواف کر کے حلق کروالیا ،پھر سعی کی ، تو اس کی سعی درست ہو گئی،مگر وقت سے پہلےاِحرام کھول کر  حلال ہونے اور واجب  کی ادائیگی سے  پہلے حلق کروانے کی وجہ سے اس پر دم لازم  ہوگا۔(شرح لباب المناسک مع حاشیۃ ارشاد الساری ، باب السعی ۔۔الخ،صفحہ248 ،مطبوعہ مکہ )

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:عمرہ کی سعی میں احرا م واجب ہے یعنی اگر طواف کے بعد سر مونڈا لیا پھر سعی کی، تو سعی ہوگئی، مگر چونکہ واجب ترک ہوا، لہٰذا دَم واجب ہے۔ (بھار شریعت، جلد 1، حصہ 6، صفحہ 1109، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

   اور صورتِ مذکورہ میں صرف ایک ہی دم لازم ہو گا، کیونکہ سب سے پہلے والے محظورِ شرعی کے ارتکاب کے وقت رفضِ احرام کی نیت پائی گئی ہے،لہٰذا اگر اس کے بعد دیگر ممنوع کاموں کا بھی ارتکاب کر لیا، مثلاً :حلق کروا کر سلے ہوئے کپڑےبھی  پہن لیے، تب بھی اس پر ایک ہی دم لازم آئے گا،چنانچہ رفضِ احرام اور وجوب دم کے متعلق  شرح لباب المناسک مع حاشیہ ارشاد الساری میں ہے: ”(اعلم أنہ إذا نوى رفض الاحرام) ای قصد ترک الاحرام بمباشرۃ المحظور علی وفق ظنہ  (فجعل يصنع ما يصنعه الحلال من لبس الثياب )ای الممنوعۃ من المخیط ونحوہ ( فإنه لا يخرج بذلك من الاحرام )ای بالاجماع (وعليه) ای یجب ( أن يعود كما كان محرما)ای ولا یرتکب بعد ذلک محظورا ( ويجب دم واحد لجميع ما ارتكب، ولو فعل المحظورات) ای استحسانا عندنا…(وإنما يتعدد الجزاء بتعدد الجنايات إذا لم ينو الرفض )ای فی اول ارتکابھا (ثم نية الرفض إنما تعتبر ممن زعم أنه یخرج منه)ای الاحرام ( بهذا القصد)ای فی ارتکاب الجنایۃ ملتقطاً ترجمہ : تُو جان لے! مُحْرِم جب اپنے گمان کے مطابق ممنوعاتِ احرام میں سے کسی کام کے ذریعے احرام کھولنے کا ارادہ کرے اور کوئی ایسا کام کرلے جو غیر مُحْرِم کرتا ہے،یعنی غیر محرم کی طرح سلےہوئےکپڑے پہنےاور اِسی کی مثل دوسرے کام(مثلاً: خوشبو لگائے، حلق کروائے)تو ان کی وجہ سے وہ محرم بالاجماع کیفیتِ احرام سے باہر نہیں نکلے گا، بلکہ اُس پر واجب ہو گا کہ جیسے پہلے مُحْرِم تھا، اُسی حالت پر واپس لوٹ آئے(جیسا کہ صورتِ مسئولہ میں دوبارہ سعی لازم ہوگی)اور اس کے بعد دیگر ممنوع کام نہ کرے(لیکن اگر کسی نے کر لیا، تو)اِن تمام ممنوع اُمور کا ارتکاب کرنے کے سبب اُس پر ایک ہی   دم لازم ہو گا،اگرچہ وہ سارے ہی محظورات کا ارتکاب کر لے۔اورمتعدد جنایات سے متعدد دم اس صورت میں لازم ہوتے ہیں ،جب پہلے ممنوع کام کا ارتکاب کرتے ہوئے رفضِ احرام کی نیت نہ کی ہو۔پھر رفضِ احرام کی نیت اُسی کی معتبر ہے ،جو یہ گمان کرتا ہو کہ وہ اس جرم کےارتکاب سے احرام سے نکل جائے گا۔ ( شرح لباب المناسک مع حاشیۃ ارشاد الساری ، باب فی جزاء الجنایات، فصل فی ارتکاب المحرم المحظور ، صفحہ 578 ، مطبوعہ مکہ  )

   اور حلق کروا لینے کے بعد سعی کرنے میں احرام لازم نہ ہونے کے متعلق علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں: سعی الحجّ بعد الوقوف لا یشترط فیہ الاحرام بل ویسنّ عدمہ وکذا سعی العمرۃ لا یشترط وجودہ بعد حلقہ بل یجب تحقّقہ قبل حلقہترجمہ : وقوف عرفہ کے بعدحج کی  سعی میں احرام شرط نہیں ، بلکہ احرام نہ ہوناسنت ہے،اسی طرح عمرہ کی سعی جب حلق کروانے کے بعد کی جائے،تو اس میں احرام پہنناشرط نہیں ، بلکہ حلق سے پہلے سعی کرنے میں اِحرام واجب ہے ۔    (شرح لباب المناسک مع حاشیۃ ارشاد الساری ، باب السعی ۔۔الخ، صفحہ 504،مطبوعہ  مکہ )

   دَم کی تفصیل بیان کرتے ہوئے امامِ اہلِ سُنَّت ، امام اَحْمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:اِس فصل میں جہاں دم کہیں گے اس سے مراد ایک بھیڑ یا بکری ہوگی اوربدنہ اونٹ یا گائے،  یہ سب جانور اُن ہی  شرائط کے ہوں جوقربانی میں ہوں۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد10، صفحہ757، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   دم کی ادائیگی حرم میں کرنا ضروری ہے، نیز اُس میں سے خود کچھ نہیں کھا سکتے، چنانچہ صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  لکھتے ہیں: کفارہ کی قربانی یا قارِن ومتمتع کے شکرانہ کی،غیر حرم میں نہیں ہو سکتی، اگر غیر حرم میں کی تو ادا نہ ہوئی، نیز شکرانہ کی قربانی سے آپ کھائے، غنی کو کھلائے، مساکین کو دے اور کفارہ کی قربانی صرف محتاجوں کا حق ہے۔ملتقطاً۔(بھارِ شریعت، جلد1، حصہ6، صفحہ1162، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی )

   امیرِ اہلِ سنت مولانا محمدالیاس عطار قادری اطال اللہ عمرَہ لکھتے ہیں:دَم یعنی ایک بکرا ، اِس میں نر ، مادہ ، دنبہ ، بھیڑ ، نیز گائے یااونٹ کا ساتواں حصہ سب شامل ہیں۔ (رفیق المعتمرین، صفحہ137، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم