Umrah Me Balon Ki Taqseer Madina Jakar Ki To Kya Hukum Hai ?

عمرہ کیا لیکن بالوں کی تقصیر مدینہ جا کر کی، تو کیا حکم ہے؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor:12510

تاریخ اجراء:        04 ربیع الثانی 1444 ھ/01 نومبر 2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک اسلامی بہن نے عمرہ اداکیا ،لیکن بالوں کی تقصیر نہیں کی اور مدینے چلی گئیں اور مدینہ جانے کے بعد وہیں بالوں کی تقصیر کی ، تو اس صورت میں کیا حکم ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   حلق یا تقصیر کا حدودِ حرم میں ہونا ، عمرہ میں واجب ہے،اگر عمرہ کرنے والے نے حلق یا تقصیر حرم سے باہر کسی مقام پر کی ،تو اس صورت میں اس پر دم لازم ہوگا۔ پوچھی گئی صورت میں اس اسلامی بہن پر لازم تھا کہ وہ عمرہ کرنے کے بعد تقصیر حدودِ حرم میں ہی کرتی،جب اس نے تقصیر حدودِ حرم میں نہیں کی اور مدینہ جانے کے بعد تقصیر کی ،تو اس صورت میں اس پردم دینا لازم ہوگیا، نیزمذکورہ صورت میں اگر بلاعذرِ شرعی جان بوجھ کر حرم میں تقصیر نہ کی،تو اس صورت میں دَم کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ توبہ کرنا بھی لازم ہوگا۔

   الدر  المنتقی میں ہے:”اما المعتمر فلا یجب علیہ الحلق الا فی الحرم ولا یختص حلقہ بزمان بالاجماع“یعنی بہر حال عمرہ کرنے والا ،تو اس پرحلق کرنا واجب نہیں مگر حرم میں اور اس کا حلق کرنا بالاجماع زمانہ کے ساتھ خاص نہیں۔(الدر  المنتقی مع مجمع الانھر، جلد1،صفحہ 438،مطبوعہ:کوئٹہ)

   ملتقی الابحر میں ہے:”ان حلق فی غیر الحرم لحج او عمرۃ فعلیہ دم“یعنی اگر غیرِ حرم میں حج یا عمرہ کا حلق کروایا ، تو اس پر دم لازم ہوگا۔(ملتقی الابحر مع مجمع الانھر، جلد1،صفحہ 438،مطبوعہ:کوئٹہ)

   علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”یجب دم لو حلق للحج او العمرۃ فی الحل لتوقتہ بالمکان“یعنی دم واجب ہوگا اگر حج یا عمرہ کا حلق حِل میں(یعنی حدودِ حرم سے باہر)کروایا،کیونکہ یہ حلق  مکان کے ساتھ خاص ہے۔(ردالمحتار، جلد3،صفحہ 666،مطبوعہ:کوئٹہ)

   صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”عمرہ کا حلق بھی حرم ہی میں ہونا ضرور ہے، اس کا حلق بھی حرم سے باہر ہوا، تو دَم ہے مگر اس میں وقت کی شرط نہیں“(بہارِ شریعت، جلد 1،حصہ6، صفحہ 1179، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   بہارِ شریعت میں ہے:”محرم اگر بالقصد بلا عذر جرم کرے ،تو کفارہ بھی واجب ہے اور گناہگار بھی ہوا ، لہٰذا اس صورت میں توبہ واجب کہ محض کفارہ سے پاک نہ ہوگا ،جب تک توبہ نہ کرے اور اگر نادانستہ یا عذر سے ہے ،تو کفارہ کافی ہے“(بہارِ شریعت، جلد1،حصہ 6،صفحہ 1162،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم