مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:
Nor-12638
تاریخ اجراء: 06 جمادی الثانی 1444 ھ/30
دسمبر 2022 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں
کہ اگر کوئی شخص عمرہ کرنے کے لئے
مکہ گیا۔ عمرہ وغیرہ کرنے کے بعد حرم سے باہر کسی کام سے
چلا جائے لیکن میقات سے باہر نہ جائے، تو واپس مکہ مکرمہ جانے کے لئے
احرام باندھنا لازم ہوگا یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں اگر
یہ شخص عمرہ کرنے کے بعد کسی بھی کام کے لئےحرم سے باہر چلا
گیا،لیکن میقات سے باہر نہ گیااور واپسی مکۃ
المکرمہ آنے پر اس کا حج یا عمرہ کرنے کا کوئی ارادہ و نیت
نہیں ،تواس پر احرام باندھنا لازم نہیں ہے، احرام باندھے بغیر
بھی واپس مکۃ المکرمہ آنا اس کے لئے جائز ہے، ہاں اگر واپسی
میں عمرہ یا حج کا ارادہ ہے ، تو اب حرم میں داخل ہونے سےپہلے
احرام باندھنا ضروری ہوگا، اسی طرح اگر میقات سے باہر چلا
گیا،تو اب بلا احرام حرم میں داخل ہونا ، جائز نہیں ہوگا۔
فتاوی
عالمگیری میں ہے:”المکی اذا خرج الی الحل للاحتطاب اوالاحتشاش ثم
دخل مکۃ یباح لہ الدخول بغیراحرام وکذلک الآفاقی اذاصار
من اھل البستان“یعنی
مکہ مکرمہ کا رہائشی لکڑیاں چننے یاگھاس جمع کرنے حل کی
طرف نکلاپھر مکہ میں داخل ہوا تواس
کے لیے بغیر احرام داخل ہونامباح ہے ، یونہی آفاقی
شخص جب اہل بستان والوں میں ہوجائے (تو اس کا حل سے مکہ میں بغیراحرام داخل ہونا جائز ہے ۔)(فتاوی
عالمگیری ،جلد1، صفحہ 221،مطبوعہ: پشاور)
تنویر الابصار
ودرِ مختار میں ہے:”(حل لاھل داخلھا)یعنی لکل من وجد فی داخل
المواقیت (دخول مکۃ غیر محرم)مالم یرد نسکا“یعنی
داخلِ میقات شخص یعنی
ہر وہ شخص جو میقات کے اندر موجود ہو،اس کے لئے بغیر احرام مکہ
میں داخل ہونا، جائز ہے
بشرطیکہ اس کاحج یا عمرہ کرنے
کا ارادہ نہ ہو۔(الدر المختار علی تنویر الابصار،جلد3،صفحہ
553۔554،مطبوعہ:کوئٹہ)
علامہ ابنِ
عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ ”ما لم یرد نسکا“ کے
تحت ارشاد فرماتے ہیں:”اما ان ارادہ وجب علیہ الاحرام قبل دخولہ ارض الحرم
فمیقاتہ کل الحل الی الحرم“یعنی بہر حال اگر اس کا حج
یا عمرہ کرنے کا ارادہ ہو، تو
زمینِ حرم میں داخل ہونے سےپہلے اس پر احرام واجب ہے، پس اس کی
میقات تمام حِل ہے حرم تک۔ (ردالمحتار علی الدر المختار،جلد3،صفحہ554،مطبوعہ:کوئٹہ)
صدر الشریعہ
مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں:”مکہ والے اگر کسی کام سے بیرونِ حرم جائیں ،تو
انہیں واپسی کے لئے احرام کی حاجت نہیں اور میقات
سے باہر جائیں ، تو اب بغیر احرام واپس آنا انہیں جائز
نہیں“
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیا 65 سال کی بیوہ بھی بغیر محرم کے عمرے پر نہیں جاسکتی؟
کسی غریب محتاج کی مددکرناافضل ہے یانفلی حج کرنا؟
کمیٹی کی رقم سے حج وعمرہ کرسکتے ہیں یانہیں؟
عورت کا بغیر محرم کے عمرے پر جانے کا حکم؟
ہمیں عمرے پر نمازیں قصرپڑھنی ہیں یا مکمل؟
جومسجد نبوی میں چالیس نمازیں نہ پڑھ سکا ،اسکا حج مکمل ہوا یانہیں؟
جس پر حج فرض ہو وہ معذور ہو جائے تو کیا اسے حج بدل کروانا ضروری ہے؟
کیا بطور دم دیا جانے والا جانور زندہ ہی شرعی فقیر کو دے سکتے ہیں؟