عمرہ کرنے والا اگر مکہ مکرمہ پہنچ جائے اور عمرہ کرنے سے روک دیا جائے ، تو اب کیا حکم ہے ؟ |
مجیب:مولانا نوید صاحب زید مجدہ |
مصدق:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی |
فتوی نمبر: Har-3953 |
تاریخ اجراء:13رجب المرجب1441ھ/09مارچ2020ء |
دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت |
(دعوت اسلامی) |
سوال |
کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ بہت سے عمرہ زائرین جو مکہ مکرمہ میں عمرہ کی ادائیگی کے لیے موجود ہیں، مگر حکومت وقت نے عمرہ کرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے،مطاف و مسعی دونوں جگہیں بند ہیں،اندر جانے کی اجازت نہیں دی جارہی۔ اس صورت میں معتمرین کے لیے کیا حکم ہے؟ احرام کی پابندیوں سے آزاد ہونے کے لیے انہیں کیا کرنا چاہیے ؟ اس کی وضاحت فرمادیں ۔ سائل : محمد اکرم عطاری، نزیل مکہ مکرمہ |
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ |
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ |
جو لو گ عمرہ کااحرام باندھ کر مکہ شریف آچکے ، پھر حکومت کی طرف سے ان کو مطلقاً طواف سے روک دیا گیا ، تو شرعا ً یہ محصر ہیں کہ احصار جس طرح حج میں متحقق ہوتا ہے ، اسی طرح عمرہ میں بھی ہوتا ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ حج میں احصار،وقوف و طواف دونوں سے روکنا ہے ، جبکہ عمرہ میں احصار صرف طواف سے روکنا ہے کہ عمرہ کا رکن طواف ہی ہے۔ نیز جس طرح احصار حل و آفاق میں ہو سکتا ہے یونہی حرم بلکہ مکہ میں بھی ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:﴿ وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَةَ لِلّٰهِ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْهَدْیِ وَ لَا تَحْلِقُوْا رُءُوْسَكُمْ حَتّٰى یَبْلُغَ الْهَدْیُ مَحِلَّهٗ ﴾اور حج اور عمرہ اللہ کے لئے پورا کرو، پھر اگر تم روکے جاؤ تو قربانی بھیجو جو میسر آئے اور اپنے سر نہ منڈاؤ ، جب تک قربانی اپنے ٹھکانے نہ پہنچ جائے۔ (سورۃ البقرۃ، آیت196) صحیح بخاری میں ہے:”عن نافع ان عبداللہ بن عمر حین خرج الی مکۃ معتمراً فی الفتنۃ قال ان صددتم عن البیت صنعنا کما صنعنا مع رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فاھل بعمرۃ من اجل ان رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کان اھل بعمرۃ عام الحدیبیۃ“حضرت نافع سے مروی ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما جب ایام فتنہ میں عمرہ کے لئے مکہ کی طرف نکلے تو فرمایا کہ اگر تمہیں بیت اللہ سے روک دیا جائے توہم وہی کریں گے جو ہم نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی ہمراہی میں کیا ۔پھر عمرے کا احرام باندھا اس لئے کہ حدیبیہ کے سال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے عمرے کا احرام باندھا تھا۔ (صحیح بخاری ،ج1،ص331،مطبوعہ لاھور) بدائع میں ہے:” الاحصار کما یکون عن الحج یکون عن العمرۃ عند عامۃ العلماء“علما ئے عامہ کے نزدیک احصارجس طرح حج میں ہو تا ہے اسی طرح عمرہ میں بھی ہو تا ہے۔ (بدائع الصنائع،ج3،ص190،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ) مناسک لملا علی القاری میں ہے:” و فی العمرۃ ای و الاحصار فیھا ھو المنع عن الطواف ای بعد الاحرام بھا او بھما لا غیر اذ لیس فیھا رکن الا الطواف بخلاف الحج“ اور عمرہ میں یعنی عمرہ میں احصار یہ روکنا ہے عمرہ کےاحرام کے بعد یا حج و عمرہ کے احرام کے بعد طواف سے کیونکہ حج کے برخلاف عمرہ میں طواف کےعلاوہ کوئی رکن نہیں۔ (مناسک،ص412،مطبوعہ کراچی) امام زیلعی رحمۃ اللہ تعالی علیہ تبیین الحقائق میں فرماتے ہیں:” و من منع بمکۃ عن الرکنین عنھما فھو محصر یعنی ان منع بمکۃ عن الطواف و الوقوف بعرفۃ صار محصراً لانہ تعذر علیہ الوصول الی الافعال فکان محصراً کما اذا کان ذلک فی الحل قال رحمہ اللہ : و الا لا ای ان لم یمنع عنھما بان قدر علی احدھما لا یکون محصراً ۔۔۔و روی ان ابا یوسف قال: سالت ابا حنیفۃ عن المحصر یحصر فی الحرم قال: لا یکون محصراً"اور جو شخص مکہ میں حج کے دو، رکنوں سے روک دیا گیا تو وہ محصر ہے یعنی اگر وہ طواف کعبہ اور وقوف عرفہ سے روک دیا جائے تو وہ محصرہوگا کیونکہ اس پر افعال تک پہنچنا مشکل ہو گیا پس وہ محصر ہو گا جیسا کہ یہ شخص حل میں ہو تا۔ مصنف امام نسفی رحمہ اللہ نے فرمایا :ورنہ نہیں یعنی اگر ان دونوں سے نہ روکا گیا اس طرح کہ ایک رکن پر قادر ہو تو وہ محصر نہیں ہو گا۔۔۔ اور امام ابو یوسف علیہ الرحمہ سے روایت ، آپ نے فرمایا: میں نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے اس محصر کے بارے میں پوچھا جسے حرم میں روک دیا گیا ہو ۔ فرمایا: وہ محصر نہیں۔ مزید فرماتے ہیں:"الاول اصح وھو التفصیل۔" پہلا قول زیادہ صحیح ہے اور وہ تفصیل والا ہے۔ (تبیین الحقائق،ج2،ص415،مطبوعہ کراچی) علامہ چلپی رحمۃ اللہ تعالی علیہ مذکورہ عبارت کے تحت فرماتے ہیں:” قولہ:(و ھو التفصیل)و ھو ان من منع عنھما بمکۃ کان محصراً و من قدر علی احدھما لا یکون محصراً اھ“ اس کا قول : اور وہ تفصیل والا قول ہے ۔اور وہ یہ کہ جو حج کے دو رکنوں سے روک دیا جائے تووہ محصرہو گا اور جو شخص ان میں سے ایک پر قادر ہو تو وہ محصر نہیں ہو گا ۔ (حاشیۃ الشیخ الشلبی علی تبیین الحقائق،ج2،ص415،مطبوعہ کراچی) مناسک لملا علی القاری میں ہے:” و فی ھذہ المسالۃ خلاف بین الامام و ابی یوسف ، حیث قال: سالتہ عن المحرم یحصر فی الحرم ، فقال : لم یکن محصرا۔ قلت: الم یحصر النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم و اصحابہ بالحدیبیۃ و ھی من الحرم فقال: نعم لکن کانت حینئذ دارالحرب ، و اما الآن فھی دارالاسلام ، و المنع فیہ عن جمیع افعال الحج نادر ، فلا یتحقق الاحصار ، و قال ابو یوسف : اما عندی فالاحصار بالحرم یتحقق اذا غلب العدو علی مکۃ حتی حال بینہ و بین البیت ، یعنی او بینہ و بین الوقوف بعرفۃ ،و اقول: و لا یبعد من غیر العدو ایضاًبان حبسہ حاکم عنھما ، و اما ما ذکرہ الطرابلسی من انہ اذا دخل مکۃ و احصر لا یکون محصراً ای شرعاً ، فمحمول علی ما ذکر فی الاصل مطلقاً بخلاف ما ذکر محمد فی النوادر مفصلاً بقولہ: و ان کان یمکنہ الوقوف و الطواف لم یکن محصراً ، و الا فھو محصر و قد قالوا: الصحیح ان ھذ ا التفصیل المذکور قول الکل علی ما ذکر الجصاص و غیرہ و صححہ القدوری، و صاحب الھدایۃ و الکافی و البدائع و غیرھم۔۔قال ابن الھمام : و الذی یظھر من تعلیل منع الاحصار فی الحرم تخصیصہ بالعدو، و اما ان احصر فیہ بغیرہ فالظاھر تحققہ علی قول الکل ، و ھذا غایۃ التحقیق، و اللہ ولی التوفیق “ اور اس مسئلہ میں امام اعظم اور امام ابو یوسف کے درمیان اختلاف ہے، چنانچہ امام ابویوسف علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ میں نے امام اعظم علیہ الرحمۃ سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جو حرم میں محصور ہو گیا کہ کیا وہ محصر ہو گا؟تو آپ نے فرمایا محصر نہیں ہو گا۔ میں نے کہا کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنھم حدیبیہ میں محصور نہیں ہو ئے؟حالانکہ یہ حرم میں شامل ہے۔ فرمایا: ہاں ،لیکن اس وقت( حرم شریف) دار الحرب تھا اور اب دارالاسلام ہے اور حج کے سارے افعال سے روک دیا جانا نادر ہے پس احصار متحقق نہیں ہو گا اور امام ابویوسف علیہ الرحمۃ نے فرمایا : بہرحال میرے نزدیک احصار متحقق ہو گا جب مکہ شریف پر دشمن غالب آجائے حتی کہ محرم اور کعبہ شریف کے درمیان حائل ہو جائے یا محرم اور وقوف عرفہ کے درمیان حائل ہو جائے اور میں کہتا ہوں بعید نہیں کہ دشمن کے علاوہ کوئی اور شخص بھی حائل ہو جائے جیسا کہ حاکم ان دو رکنوں سے روک دے اور بہرحال جس کو طرابلسی نے ذکرکیا کہ جب کوئی شخص مکہ میں داخل ہو جائے اور روک دیا جائے تو وہ شرعا محصر نہیں کہلائے گا یہ اس پر محمول ہے جو اصل میں مطلقا ذکر کیا گیا برخلاف اس کے جو امام محمد علیہ الرحمۃ نے نوادر میں تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا کہ اگر وقوف عرفہ اور طواف ممکن ہو تو محصر نہیں ہو گا ورنہ محصر ہو گا اور فقہائے کرام نے فرمایا : صحیح یہ ہے کہ یہ مذکورہ تفصیل سب کا قول ہے اس کے مطابق جو امام جصاص وغیرہ نے ذکر کیا اور امام قدوری،صاحب ہدایہ ،کافی بدائع وغیرہم نے اس کو صحیح قرار دیا۔ ابن ہمام نے فرمایا : اور وہ جو ظاہر ہے یعنی حرم شریف میں احصار کے ممنوع ہونے کی علت اس کی تخصیص دشمن کے ساتھ ہے اور اگر حرم شریف میں دشمن کے علاوہ کسی اور وجہ سے روک دیا تب بھی سب کے قول پر ظاہر یہی ہے کہ احصار متحقق ہو گا اور یہ انتہائے تحقیق ہے اور اللہ تبارک وتعالی ہی تو فیق کا مالک ہے۔ (مناسک،ص412،مطبوعہ کراچی) نہایہ میں بھی تفصیلی قول کو صحیح قرار دیا ۔ بحر میں فرمایا کہ نہایہ کی تصحیح اس طرف اشارہ ہے کہ تفصیلی قول کو نادر الروایہ قرار دینا اور” مکہ میں احصار نہیں“کے قول کو ظاہر الروایہ قرار دینا مردود ہے۔چنانچہ بحرالرائق میں ہے:”و قد قیل فی المسالۃ خلاف بین ابی حنیفۃ و ابی یوسف و الصحیح ما تقدم من التفصیل۔ کذا فی النھایۃ ۔ و ھو اشارۃ الی رد ما فی المحیط حیث جعل ما فی المختصر من التفصیل روایۃ النوادر و ان ظاھر الروایۃ ان الاحصار بمکۃ عنھما لیس باحصار لانہ نادر و لا عبرۃ بہ“ اور کہا گیا ہے کہ اس مسئلہ میں امام اعظم اور امام ابو یوسف علیہما الرحمۃ کے درمیان اختلاف ہے اور صحیح تفصیل والا قول ہے جو پیچھے گزر چکا ۔ اسی طرح نہایہ میں ہے اور یہ اشارہ ہے اس کےرد کی طرف جو محیط میں ہے اس حیثیت سے کہ صاحب محیط نے اس تفصیل کو جو مختصر میں ذکر کی گئی ہے روایت نوادر قرار دیا اورفرمایا ظاہر الروایہ یہ ہے کہ مکہ شریف میں ان دو ارکان سے رو ک دیا جانا شرعا احصار نہیں ہو گا کیونکہ یہ نادرہے اور اس کا اعتبارنہیں ہو تا۔ (بحرالرائق،ج3،ص100،مطبوعہ کوئٹہ) ہدایہ میں مزید ہے:” ومن احصر بمکۃ وھو ممنوع عن الطواف والوقوف فھو محصر )لانہ تعذر علیہ الاتمام فصار کما اذا احصر فی الحج(وان قدر علی احدھما فلیس بمحصر) اما علی الطواف فلان فائت الحج یتحلل بہ والدم بدل عنہ فی التحلل واما علی الوقوف فلما بینا وقد قیل فی ھذہ المسئلۃ خلاف بین ابی حنیفۃ وابی یوسف رحمھما اللہ تعالی والصحیح ما اعلمتک من التفصیل واللہ تعالی اعلم“ اور جو شخص مکہ میں محصور ہو گیا اس حال میں کہ وہ طواف زیارہ اور وقوف عرفہ سے رو ک دیا گیا تو وہ محصر ہے کیونکہ اس پر اتمام متعذر ہو گیا ۔ پس یہ ایسے ہو گیا جیسا کہ وہ حج میں محصور ہو گیا اور اگر ان میں سے ایک رکن کے ادا کرنے پر قادر ہو تو وہ محصر نہیں ہو گا بہرحال طواف پر کیونکہ حج کو فوت کرنے والا اسی سے احرام سے باہر ہوتا ہے اور دم اس کا بد ل ہےاحرام کھولنے میں اور بہرحال وقوف پر اس کی جہ سے کہ جو ہم نے بیان کیا۔ اور کہا گیا کہ اس مسئلہ میں امام اعظم اور امام ابو یوسف رحمہماللہ کے درمیان اختلاف ہے اور صحیح وہ ہے جو میں نے تم کو تفصیلی بتایا۔ اللہ تبارک وتعالی خوب جانتا ہے۔ (الھدایہ مع فتح القدیر،ج3،ص58،مطبوعہ کوئٹہ) محصر احرام سے باہر آنے کے لئے حدود حرم میں بکری، بکرا وغیرہ جانور کہ جو قربانی کے شرائط کے مطابق ہو، ذبح کرے۔اگر خود نہیں کر سکتا یا خود کا حرم پہنچنا دشوار ہے ، تو کسی دوسرے کو ایک بکری کی قیمت دے کر اپنا وکیل مقرر کر دے اور وہ اس قیمت سے بکری خرید کر اس کی طرف سے حدود حرم میں ذبح کر دے۔ جب بکری ذبح ہو جائے گی ، تو اس کا احرام کھل جائے گا۔یہ یاد رہے کہ قربانی ذبح ہونے سے پہلے اگر ممنوعات احرام میں سے کسی بھی جرم کا ارتکاب کیا ، تو اس کے اعتبار سے صدقہ یا دم وغیرہ لازم ہو جائے گا، لہٰذا جب قربانی کے لئے کسی کو اپنا وکیل مقرر کرے ، تو اس سے یہ بات طے کر لے کہ فلاں دن ، فلاں وقت قربانی ذبح ہو گی۔ پھر اس وقت پر وکیل سے رابطہ کرکے اس بات کی تسلی بھی کرلے کہ اس کی طرف سے قربانی ہو گئی ہے۔نیز احرام کے باہر آنے کے لئے قربانی کافی ہے حلق کروانا ضروری نہیں لیکن بعدِ قربانی اگر حلق کروا لیا جائے تو مستحسن ہے ۔چنانچہ صحیح بخاری میں ہے:” عن عکرمۃ قال فقال ابن عباس قد احصر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فحلق راسہ و جامع نساءہ و نحرہ ھدیہ حتی اعتمر عاماً قابلاً “حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ارشاد فرمایا : تحقیق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عمرے سے رو کا گیا تو آپ نے اپنے سر مبارک کا حلق کروایا اور اپنی ازواج سے ازدواجی تعلق قائم فرمایا اور جانور کو نحر کیا حتی کہ آئندہ سال عمرہ فرمایا۔ (صحیح بخاری ،ج1،ص331،مطبوعہ لاھور) عالمگیریہ میں ہے:”و اما حکم الاحصار فھو ان یبعث بالھدی او بثمنہ لیشتری بہ ھدیاً و یذبح عنہ ما لم یذبح لا یحل و ھو قول عامۃ العلماء سواء شرط عند الاحرام الاھلال بغیر ذبح عند الاحصار او لم یشترط و یجب ان یواعد یوماً معلوماً یذبح عنہ فیحل بعد الذبح و لا یحل قبلہ حتی لو فعل شیئا من محظورات الاحرام قبل ذبح الھدی یجب علیہ ما یجب علی المحرم اذا لم یکن محصراً “ اور بہر حال احصار کا حکم یہ ہے کہ قربانی یا اس کی قیمت بھیجے تا کہ اس سے قربانی کا جانور خریدا جائے اور اس کی طرف سے ذبح کیا جائے ۔ جب تک ذبح نہیں کیا جائے گااحرام نہیں کھلے گا اور یہی قول عامہ علماء کا ہے برابر ہے کہ احرام باندھتے ہوئے احصار کے وقت بغیر ذبح کے احرام کھولنے کی نیت کی ہو یا نہ کی ہو اور واجب ہے کہ ایک معین دن کا وعدہ لے لے جس دن اس کی طرف سے ذبح کیا جائے گا پس ذبح کے بعد احرام کھولے ،پہلے نہیں کھول سکتا حتی کہ اگر ذبح سے پہلے ممنوعات احرام میں سے کسی ممنوع کا ارتکاب کیا تو اس پر وہی واجب ہو گا جو محرم پر واجب ہو تا ہے جب وہ محصر نہ ہو ۔ (فتاوی ھندیہ،ج1،ص255،مطبوعہ کوئٹہ) عالمگیریہ میں حلق کے بارے میں ہے:”واما الحلق فلیس بشرط للتحلل فی قول ابی حنیفۃ و محمد رحمھمااللہ تعالی و ان حلق فحسن کذا فی البدائع “ اور بہر حال حلق کروانا امام اعظم اور امام محمدرحمہما للہ کے قو ل کے مطابق احرا م سے باہر آنے کے لیے شرط نہیں ہے اور اگر حلق کروالیا تو اچھا کیا اسی طرح بدائع میں ہے۔ (فتاوی ھندیہ،ج1،ص255،مطبوعہ کوئٹہ) یہ یاد رہے کہ احرام سے باہر ہونے کے بعد بہرحال اس پر اس عمرے کے بدلے میں ایک عمرہ لازم ہے ۔عمر بھر جب اس عمرے کا موقع ملےاس عمرے کو ادا کرے۔ہندیہ میں ہے:” ثم اذا تحلل المحصر بالھدی و کان مفرداً بالحج فعلیہ حجۃ و عمرۃ من قابل و ان کان مفرداً بالعمرۃ فعلیہ عمرۃ مکانھا “ پھر جب محصر قربانی کے ساتھ احرام کھو لے گا اور وہ حج افراد کر رہا تھا تو اس پر اگلے سال حج اور عمرہ کی قضاء ہو گی اور اگر صرف عمرہ کر رہا تھا تو اس پر اس کی جگہ عمرہ کی قضاء ہو گی۔ (فتاوی ھندیہ،ج1،ص255،مطبوعہ کوئٹہ) |
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم |
کیا 65 سال کی بیوہ بھی بغیر محرم کے عمرے پر نہیں جاسکتی؟
کسی غریب محتاج کی مددکرناافضل ہے یانفلی حج کرنا؟
کمیٹی کی رقم سے حج وعمرہ کرسکتے ہیں یانہیں؟
عورت کا بغیر محرم کے عمرے پر جانے کا حکم؟
ہمیں عمرے پر نمازیں قصرپڑھنی ہیں یا مکمل؟
جومسجد نبوی میں چالیس نمازیں نہ پڑھ سکا ،اسکا حج مکمل ہوا یانہیں؟
جس پر حج فرض ہو وہ معذور ہو جائے تو کیا اسے حج بدل کروانا ضروری ہے؟
کیا بطور دم دیا جانے والا جانور زندہ ہی شرعی فقیر کو دے سکتے ہیں؟