Umrah Kar Ke Mina Muzdalifa Aur Arafat Jana Aur Baghair Ihram Makkah Wapas Aana

عمرہ کر کے منی، مزدلفہ و عرفات جانا اور بغیر احرام واپس مکہ مکرمہ آنا

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13228

تاریخ اجراء: 28 جمادی الثانی 1445 ھ/11 جنوری 2024 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ پاکستان سے عمرہ کے لیے گئے، عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد اگلے دن منی ، مزدلفہ، عرفات اور مسجدِ نمرہ وغیرہ کی زیارت کے لئے گئے، تو واپسی میں  احرام باندھنا ضروری ہے ؟ اگر کسی نے احرام نہ باندھا اور ویسے ہی واپس آگیا، تو کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   منی و مزدلفہ حدودِ حرم میں شامل ہیں، لہٰذا عمرہ کی ادائیگی کے بعدزیارت کے لئے ان مقامات پر چلے گئے، تو واپسی پر احرام باندھنا لازم نہیں بلکہ اگر حدودِ حرم سے بھی باہر نکل گئےجیسے میدانِ عرفات میں چلے گئے، لیکن میقات سے باہر نہ گئے، تو بھی واپسی پر احرام باندھنا ضروری نہیں ،  بغیر احرام باندھے بھی واپس آنا،  جائز ہےجبکہ واپسی پر حج یا عمرہ کرنے کا کوئی ارادہ نہ ہو ۔ ہاں اگر واپسی پر مزید عمرہ کی نیت ہو، تو اب حدودِ حرم سے باہرکسی مقام  سےاحرام باندھ کر آنا ضروری ہوگا ۔

   حرم سے باہر حل میں کسی مقام پر گیا، تو واپسی پر احرام باندھنا ضروری نہیں۔بغیر احرام واپس آنا،  جائز ہے۔اس کے متعلق بدائع الصنائع میں ہے:”لو خرج من الحرم إلى الحل ولم يجاوز الميقات ثم أراد أن يعود إلى مكة ، له أن يعود إليها من غير إحرام ؛ لأن أهل مكة يحتاجون إلى الخروج إلى الحل للاحتطاب والاحتشاش والعود إليها ، فلو ألزمناهم الإحرام عند كل خروج لوقعوا في الحرج “یعنی  اگر حرم سے حل کی طرف نکلا اور میقات سے تجاوز نہ کیا پھر مکہ کی طرف لوٹنا چاہتا ہے، تو اسے بغیر احرام لوٹنا جائز ہے کیونکہ اہلِ مکہ کولکڑیاں چننے یا گھاس جمع کرنے کے لئےحل کی طرف جانے اور پھر واپس آنے کی حاجت ہوتی ہے، تو اگر ہم ہر بار ہی ان پر احرام کو لازم قرار دیں ، تو وہ حرج میں پڑ جائیں گے۔(بدائع الصنائع،جلد2، صفحہ 167، مطبوعہ:بیروت)

   تنویر الابصار ودرِ مختار میں ہے:”(حل لاھل داخلھا)یعنی لکل من وجد فی داخل المواقیت (دخول مکۃ غیر محرم) ما لم یرد نسکا“یعنی ہر وہ شخص جو میقات کے اندر موجود ہو،اسے بلا احرام مکہ میں داخل ہونا،  جائز ہے بشرطیکہ اس کاحج یا عمرہ  کرنے کا ارادہ نہ ہو۔(الدر المختار علی تنویر الابصار،جلد3،صفحہ 553۔554، مطبوعہ:کوئٹہ)

   اگر عمرہ کی نیت ہو تو اب احرام باندھنا ضروری ہوگا اور احرام حل میں کسی بھی مقام سے باندھا جا سکتا ہے۔اس کے متعلق علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:”اما ان ارادہ وجب علیہ الاحرام قبل دخولہ ارض الحرم فمیقاتہ کل الحل الی الحرم“ یعنی  اگر اس کا حج یا عمرہ کرنے  کا ارادہ ہو، تو زمینِ حرم میں داخل ہونے سےپہلے اس پر احرام واجب ہے، پس اس کی میقات تمام حِل ہے حرم تک۔(ردالمحتار علی الدر المختار،جلد3، صفحہ554،مطبوعہ:کوئٹہ)

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”مکہ والے اگر کسی کام سے بیرونِ حرم جائیں ،تو انہیں واپسی کے لئے احرام کی حاجت نہیں اور میقات سے باہر جائیں ، تو اب بغیر احرام واپس آنا انہیں جائز نہیں“ (بہار شریعت،جلد1،صفحہ1068۔1069،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم