Tawaf Ke Doran Aurat Ko Haiz Aa Jaye To Kya Kare ?

طواف کے دوران  عورت کو حیض آجائے تو کیا کرے؟

مجیب:محمد عرفان مدنی عطاری

فتوی نمبر:WAT-1682

تاریخ اجراء: 05ذوالقعدۃالحرام1444 ھ/26مئی2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   طواف کے دوران  عورت کو حیض آجائے تو کیا حکم ہے؟ نیز عمرہ تو اب  حیض ختم ہونے کے بعد  ہی مکمل ہوگا   لیکن اب  احرام  کی حالت میں اتنے دن کیسے گزارے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     اگرعورت کو طواف   کے  دوران حیض آجائے تو اُس کے لیے حکم  شرعی یہ ہے کہ طواف کو وہیں چھوڑ دے اور فوراً ہی   مسجد سے باہر آجائے،اور اب صبر و رضا کے ساتھ احرام کی پابندیوں کا خیال رکھتے  ہوئے ناپاکی کے ایام گزارے،اللہ تعالی  کی رحمت سے امید ہے کہ اس تکلیف پر  صبر کرنے کی صورت میں اُسے اجر و ثواب عطا فرمائے،پھر جب حیض سے فارغ ہوجائے  تو غسل کرکے  طواف کرے ،اب اگر طواف کے چار پھیرے مکمل ہونے سے پہلے  حیض آیا تھا تو اس صورت میں اسےاختیار ہے کہ چاہے تو  ساتوں پھیرے نئے سرے  سے شروع کرے  اور چاہے تو جہاں سے چھوڑا تھا،    وہیں  سے شروع کرلے،اور اگر  چار  یا   اس سے زیادہ پھیرے مکمل ہوگئے تھے  تو اب نئے سرے سے طواف کرنے کی اجازت نہیں ،بلکہ جہاں سے چھوڑا تھا، وہیں سے شروع  کرنا  ہوگا۔

   در مختار میں ہے:’’لو خرج منہ ۔۔۔ثم عاد بَنٰی ‘‘ترجمہ:اگر طواف چھوڑ کر چلا گیا،پھر لوٹا تو اسی پر بِنا کرے گا۔

   علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ در مختار کی اس عبارت (بَنٰی) کے تحت فرماتے ہیں:’’أی علی ما کان طافہ ،ولا یلزمہ الاستقبال۔قلت: ظاھرہ انہ لو استقبل لا شئی علیہ  فلا یلزمہ اتمام الاول ۔۔۔ثم رأیت  فی اللباب  ما یدل  علیہ حیث قال  فی فصل مستحبات الطواف :ومنھا استئناف الطواف  لو قطعہ أو فعلہ  علی وجہ مکروہ ۔قال شارحہ :لو قطعہ  أی ولو بعذر ،والظاھر انہ مقید بما قبل  اتیان اکثرہ‘‘ ترجمہ:یعنی جہاں سے طواف چھوڑا تھا وہیں سے شروع کرے گا،نئے سرے سے کرنا ضروری نہیں۔میں کہتا ہوں اس کا ظاہر یہ ہے کہ  اگر نئے سرے سے شروع کرے تو اس پر کچھ حرج نہیں،  لہذا   پہلے طواف  کو مکمل کرنا اس پر لازم نہیں ۔پھر میں نے لباب میں وہ  عبارت دیکھی جو اس پر دلالت کرتی ہے ،کہ انہوں نے طواف کے مستحبات والی فصل میں فرمایا:طواف کے مستحبات میں  نئے سرے سے طواف کو شروع کرنا (بھی )ہے اگر اس نے طواف کو (بیچ سے)چھوڑدیا یا اسے مکروہ  طریقے سے کیا ۔ اس کےشارح نے فرمایا:کہ جومصنف نے طواف چھوڑنے کاذکرکیاہے تواس سے مرادہے کہ اگرچہ کسی عذرکے سبب چھوڑاہو ۔اور ظاہر یہی ہے کہ نئے سرے سے شروع  کرنا،طواف کے اکثر پھیروں کو مکمل  کرنے سے پہلے چھوڑنے کے ساتھ مقید ہے۔(در مختار مع رد المحتار، جلد3، صفحہ582،مطبوعہ: کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم