مجیب:مفتی فضیل رضا عطاری
فتوی نمبر:Kan-17765
تاریخ اجراء:17جمادی الثانی 1445 ھ/01 جنوری 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے
ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلےکے بارے میں
کہ طواف کے بعد دو رکعتیں پڑھے
بغیر دوسراطواف کرنے کا
کیا حکم ہے ؟نیز
اگر کسی نے ایسا کیا، تو کیا ا س پر دم یا کفارہ لازم ہوگا ؟
بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
طواف کرنے کے بعد دو رکعت پڑھنا واجب ہے،اگر وقت مکروہ نہ
ہو،تو طواف اوران دو رکعتوں کے درمیان موالات (یعنی دو رکعتوں کا طواف کے فورا ًبعد ادا ہونا) سنت
ہے ،لہذامکروہ اوقات کے علاوہ ایک
طواف کی رکعتیں ادا
کیے بغیر دوسرا طواف كرنا،مکروہ اور خلاف سنت
ہے، کیونکہ اس سے طواف اور دو رکعتوں کے درمیان موالات کی سنت کا ترک
لازم آئے گا ،البتہ اس کی وجہ سے کوئی دم یا کفارہ لازم
نہیں ہوگا ،ہاں اگرمکروہ وقت ہوتو بغیر دو رکعت پڑھے دوسرا طواف کرنا
بلا کراہت جائز ہے ۔
لباب المناسک میں طواف کے بعد کی دو رکعتوں کے
متعلق ہے :’’وھی واجبۃ
بعد کل طواف فرضا کان او واجبا او سنۃ او نفلا ‘‘ یعنی دو
رکعتیں ہر طواف کے بعد واجب
ہیں، خواہ طواف فرض ہو یا واجب، سنت ہونفل ہو ۔(لباب المناسک،صفحہ218،مطبوعہ بیروت)
ارشاد الساری میں مکروہات طواف کے بیان
میں ہے :’’(والجمع بین اسبوعین فاکثر من
غیر صلاۃ بینھما ) لما یترتب علیہ من ترک
السنۃ وھی الموالاۃ بین الطواف و صلاتہ لکل اسبوع ‘‘ یعنی دو یا دو سے زائد طوافوں کو درمیان
میں نماز پڑھے بغیر جمع کرنا (مکروہ ہے) کیونکہ اس کی وجہ
سے طواف کے ہر سات چکر اور اس کی نماز کے درمیان موالات کی سنت
کا ترک لازم آئے گا۔(ارشاد الساری ،صفحہ223،مطبوعہ بیروت )
فتاوی عالمگیری میں ہے :’’ویکرہ لہ الجمع بین الاسبوعین بغیر صلاۃ
بینھما ‘‘ یعنی دو
طواف کو اس طرح جمع کرنا، مکروہ ہے کہ ان کے درمیان نماز نہ ہو ۔(فتاوی عالمگیری ،جلد1،صفحہ234،مطبوعہ کوئٹہ)
فتاوی رضویہ
میں مکروہات طواف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’ایک طواف کے بعد
جب تک اس کی رکعتیں نہ پڑھ لیں، دوسرا طواف شروع کردینا
(مکروہ ہے)مگر کراہت نماز کا وقت ہو، جیسے صبح صادق سے طلوع آفتاب
یا نماز عصر پڑھنے کے بعد سے غروب آفتاب تک کہ اس میں متعدد
طواف بے فصل نماز جائز ہیں ۔‘‘ (فتاوی رضویہ ،جلد10،صفحہ752،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور
)
طواف کے نوافل نہ پڑھنے
پر کوئی دم یا کفارہ لازم نہیں ہوتا، بلکہ نوافل ذمہ پر لازم رہتے ہیں ،اس کے متعلق لباب المناسک
میں ہے:’’ولو ترک رکعتی الطواف لاشئی علیہ ولا تسقطان عنہ
و علیہ ان یصلیھما ولو بعد سنین ‘‘ یعنی اگر کسی نے طواف
کی دو رکعت تر ک کیں
،تو اس پر کچھ بھی لازم نہیں اور وہ رکعتیں
(ذمہ سے ) ساقط نہ ہوں
گی اور اس پر لازم ہے کہ وہ دو رکعتیں پڑھے اگرچہ کئی
سالوں بعد ۔(لباب المناسک،صفحہ218،مطبوعہ بیروت)
بہار شریعت میں ہے :’’ سنت
یہ ہے کہ وقتِ کراہت نہ ہو تو طواف کے بعد فوراً
نماز پڑھے، بیچ میں فاصلہ
نہ ہو اور اگر نہ پڑھی تو عمر بھر میں جب پڑھے گا ،ادا
ہی ہے قضا نہیں مگر بُرا کیا کہ سنت
فوت ہوئی۔‘‘(بھار شریعت ،جلد1،صفحہ1103،مطبوعہ مکتبۃ
المدینہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیا 65 سال کی بیوہ بھی بغیر محرم کے عمرے پر نہیں جاسکتی؟
کسی غریب محتاج کی مددکرناافضل ہے یانفلی حج کرنا؟
کمیٹی کی رقم سے حج وعمرہ کرسکتے ہیں یانہیں؟
عورت کا بغیر محرم کے عمرے پر جانے کا حکم؟
ہمیں عمرے پر نمازیں قصرپڑھنی ہیں یا مکمل؟
جومسجد نبوی میں چالیس نمازیں نہ پڑھ سکا ،اسکا حج مکمل ہوا یانہیں؟
جس پر حج فرض ہو وہ معذور ہو جائے تو کیا اسے حج بدل کروانا ضروری ہے؟
کیا بطور دم دیا جانے والا جانور زندہ ہی شرعی فقیر کو دے سکتے ہیں؟