Taif Se Ihram Ke Baghair Makkah Aana Phir Umrah Kiye Baghair Pakistan Aana

طائف سے احرام کے بغیر مکہ آنے اور وہاں سے عمرہ کیے بغیر پاکستان آنے کا حکم ؟

مجیب: مفتی محمد  قاسم عطاری     

فتوی نمبر: Fsd-8725

تاریخ اجراء: 23 جمادی الاخری    1445ھ/06 جنوری 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلےکےبارے میں کہ ہم عمرہ کے بعد طائف زیارات کے لیے گئےاور  وہاں سے عمرہ کا اِحرام نہیں باندھا ،بلکہ یونہی مکہ مکرمہ واپس آکر  وطن واپسی کی تیاری کر کے اپنے ملک پاکستان میں آگئے،تو کیا ایسی صورت میں ہم پر کوئی دَم وغیرہ تو لازم نہیں ہوگا،بہت سےلوگ یونہی وطن واپسی کے آخری دِنوں میں طائف زیارات کے لیے جاتے ہیں اور  مکہ شریف واپس آکر عمرہ وغیرہ کیے بغیر ہی وطن واپس آجاتے ہیں ،ایسی صورت میں کیا شرعی احکام ہوتے ہیں؟رہنمائی کر دیجیے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   آفاق (یعنی میقات کے باہر) سے مکہ پاک یا حدودِ حرم میں کسی بھی غرض سے آنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مکہ پاک میں حج یا عمرہ کے احرام کے ساتھ داخل ہو اور  اس کی ادائیگی کر کے اپنے احرام سے باہر ہو،اگرچہ وہ حج یا عمرہ کرنے کے ارادے سے نہ آیا ہو،لہٰذا آفاقی(میقات کے باہر سے آنے والے)کے لیے میقات سے بغیر احرام کے گزرنا،ناجائز و گناہ ہے اور جو شخص مکہ  پاک میں اس طرح بغیر احرام کے داخل ہو جائے،اُس پر  واجب ہے کہ میقات پر  آکر احرام باندھے،اگر وہیں سے باندھ لیا،تو میقات سے بغیر احرام کےداخل ہونےکےسبب ایک دم لازم ہوگا اور اگر میقات پر آکر احرام نہ باندھا،بلکہ وطن واپس چلا گیا،تو اس پر ایک حج یا عمرہ واجب ہو گیا،اگر اُسی سال فرض یا نفل حج،یا نفل یا واجب عمرہ، الغرض کسی قسم کاحج یا عمرہ کر لے،تو یہ واجب (میقات سے بغیر احرام کے گزرنے سے لازم ہونے والا  عمرہ) بھی ادا ہوجائے  گا (الگ سے اس کے لیے نیت کرکے عمرہ کرنا لازم نہیں ہوگا)اور دَمْ بھی معاف ہوجائے گا اور اگر اسی سال نہیں کرتا، تو سُقُوْطِ دَمْ و نُسُک  (یعنی میقات سے بغیر احرام کے گزرنے کے سبب لازم ہونے والے عمرہ اور دم کو معاف کروانے)کے لیے آئندہ خاص اُس واجب ہونے والے عمرہ کی نیت سےہی  حج یا عمرہ ادا کرنا ضروری ہوگا، یعنی وہ احرام میں یہ نیت کرےگا کہبغیر احرام کے مکہ شریف میں داخل  ہونے کی وجہ سے مجھ پر جو عمرہ لازم ہوا تھا میں نے اس کے احرام کی نیت کی،تو ہی وہ اِس سے برئ الذمہ ہو گا،یہ عمرہ ادائیگی کے بغیر معاف نہیں ہوگا، نہ ہی دَمْ وغیرہ اس کا بدل بن سکتا ہے۔

   اس تفصیل کے بعد پوچھی گئی صورت کا متعین جواب  یہ ہےکہ طائف میقات سے باہر ہےاور میقات سے احرام کے بغیر نہیں گزر سکتے، لہٰذا سوال میں ذکر کردہ صورت میں چاہیے یہ تھا کہ اولاً ہی طائف کی میقات سے احرام باندھ کر آتے ، جب ایسا نہیں کیا تھا،تو دوبارہ میقات پرجا کر اِحرام باندھ کر عمرہ کی نیت کرتے اور مکہ پاک میں آکر   عمرہ  ادا کر کے احرام سے نکلتے،پھر وطن واپس آتے،اب جبکہ ایسا بھی نہیں کیا اور یونہی اپنے وطن واپس آگئے ہیں،تو ایسی صورت میں لازم ہے کہ دوبارہ وطن سے حج یا عمرہ (خواہ نفل یا فرض  حج،یا نذر وغیرہ واجب عمرہ)کی نیت سے میقات سے احرام باندھ کرچلے جائیں اور اس کو ادا کر لیں،تووہ لازم ہونے والا  عمرہ اور دَمْ ساقط ہوجائے گا،جب کہ اِسی سال ہی  چلے جائیں اور اگر اِسی سال نہ گئے،تو آئندہ اس واجب ہونے والے عمرہ  اور دم کو ساقط کرنے کے لیے خاص اُس واجب ہونے والے عمرہ کی نیت سے احرام باندھ کر جانا ضروری  ہو گا،بغیر اس کے معافی کی کوئی صورت نہیں اور  جان بوجھ کر میقات سے بغیر احرام کے گزرنے کی وجہ سے گنہگار بھی ہوئے،لہٰذا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس عمل سے سچی تو بہ کرنا بھی لازم ہے۔

اب اس تفصیل کے بالترتیب جزئیات ملاحظہ کیجیے :

   آفاق یعنی میقات کے باہر سے حدودِ حرم میں جانے والے کے لیے حج یا عمرہ کا احرام باندھنا ضروری ہے اور بغیر احرام کے جانے کی وجہ سے ایک حج یا عمرہ لازم ہو جائے گا،چنانچہ علامہ شیخ رحمت اللہ  بن عبد اللہ سندھی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:993ھ/1585ء) لکھتے ہیں:و حکمھا وجوب الاحرام منھا لاحد النسکین وتحریم تاخیرہ عنھا لمن اراد دخول مکۃ أو الحرم وان کان لقصد التجارۃأو غیرھا  ولم یرد  نسکا،ولزوم الدم  بالتاخیرووجوب احد النسکین  ترجمہ:میقات کا حکم یہ ہے کہ جو شخص مکہ یا حرم میں داخل ہونے کا ارادہ کرے ، اگرچہ اس کا وہاں جانا تجارت یا کسی اور مقصدکےلیے ہواور اگرچہ اس کا عمرہ یا حج کا ارادہ نہ ہو، پھربھی اُس پر میقات سے عمرہ یا حج میں سے کسی ایک کا احرام باندھنا واجب ہے اور (جان بوجھ کر)احرام کو میقات سے مؤخر کرناحرام ہے اور(میقات کے حکم میں سے یہ بھی ہے کہ اس پر) تاخیر کی وجہ سے دم اور حج یا عمرہ میں سے کسی ایک کی ادائیگی واجب ہے۔(لباب المناسک وعباب المسالک ، فصل فی المواقیت،الصنف الاول ،صفحہ 77،مطبوعہ دارقرطبہ)

   جو آفاقی بغیر احرام کے حدودِ حرم میں داخل ہوجائے،اس کے بارے میں حکم بیان کرتے ہوئے تنویر الابصار و درمختار میں اور لباب المناسک اور اس کی شرح میں فرمایا گیا،واللفظ للثانی:(من جاوز وقتہ  غیر محرم...فعلیہ العود)أی فیجب علیہ الرجوع(الی وقت )أی:الی میقات من المواقیت(وان لم یعد فعلیہ دم ... فان عاد)أی:المتجاوز(سقط)أی:الدم(ان لبی منہ)أی:من المیقات علی فرض أنہ احرم بعدہ،والا فلا بد ان ینوی ویلبی لیصیر محرما حینئذ‘‘ترجمہ:جو شخص احرام کی نیت کے بغیر میقات سے گزرجائے،تو اس پر  کسی بھی میقات پر واپس لوٹنا واجب ہے اور اگر واپس نہ لوٹا ،تو اس پر دَمْ لازم ہوگااور اگر کسی بھی میقات پر چلا گیا اور تلبیہ کہہ لی، تو دم ساقط ہوگیا،یعنی جبکہ میقات سے گزرنے کے بعد(حرم میں ہی کسی جگہ) احرام کی نیت کرلی ہو اور اگر(کسی طرح بھی ) اِحرام کی نیت نہیں کی،تو اب ضروری ہے کہ میقات پر جاکر نیت کرے اور تلبیہ کہے تاکہ وہ اُس وقت مُحرم ہوجائے۔ (تنویر الابصار و الدرالمختار،کتاب الحج ،جلد3،صفحہ711 ،مطبوعہ کوئٹہ)(لباب المناسک،فصل فی مجاوزۃ المیقات بغیر احرام،صفحہ31 ، 32،مطبوعہ مطبعۃ سعادۃ محمد پاشا)

   اور اس صورت میں اگر اسی سال نفل یا فرض حج ،یا واجب و نفل عمرہ  کر لیا،تووہ واجب ہونے والا عمرہ اور دم معاف ہو جائے گا،ورنہ اس کے بعد تعیّنِ نیت ضروری یعنی کسی میقات سے بالخصوص  اُسی واجب ہونے والےعمرہ کی نیت سے احرام باندھ کرجانا لازم ہوگا،چنانچہ’’المسلک المقسط مع المنسک المتوسط‘‘ میں ہے:(و من دخل )ای:من اھل الآفاق( مکۃ )او الحرم (بغیر احرام فعلیہ احد النسکین ) ای من الحج او العمرۃ ، و کذا علیہ دم المجاوزۃ او العود ( فان عاد الیٰ میقات من عامہ فاحرم  بحج فرض) ای اداء (او قضاء او نذر او عمرۃ نذر  (او قضاء) وکذا عمرۃ سنۃ و مستحبۃ ( سقط بہ ) ای بتلبیۃ للاحرام من الوقت ( ما لزمہ بالدخول من النسک ) ای الغیر المتعین ، ( و دم المجاوزۃ و ان لم ینو ) ای بالاحرام ( عما لزمہ ) ای بالخصوص…( ولولم یحرم من عامہ) ای لذٰلک النسک ( لم یسقط ) ای ما لزمہ ( الا ان ینوی عما لزمہ ) ای خصوصا ( بالدخول ) ای بسبب دخولہ ( بغیر احرام ) ای حینئذترجمہ :اور جو آفاقی مکہ پاک یا حرم میں بغیر احرام کے داخل ہو،اس پر حج یا عمرہ لازم ہو گیااور ساتھ میں بلااحرام میقات سے گزرنے  کی وجہ سے دَمْ یا میقات پر لوٹ کر احرام باندھنا لازم ہو گیا ،پس اگر اسی سال کسی میقات پر لوٹا اور  فرض یعنی ادا یا قضا یا منت کے حج یا منت یا قضا ،یونہی سنت یا مستحب عمرہ کا  احرام باندھا،تووقت کے اندر میقات سے تلبیہ پڑھ لینے کی وجہ سے جو حج یاعمرہ اور دم لازم  ہوا تھا،ساقط ہوجائےگا،یعنی اگرچہ بالخصوص اس لازم آنے والے نسک و دم کی نیت نہ بھی کرے (تب بھی ادا ہوجائےگا)اور اگر اسی یعنی عمرہ واجب ہونے کے سال  میں احرام نہ باندھا،تو وہ تب  تک ساقط نہیں ہوگا، جب تک بالخصوص احرام کے بغیر میقات سے داخل ہونے کے سبب لازم ہونے والے اس عمرہ کی نیت نہ کرے۔ (المسلک  شرح المنسک ،مع حاشیہ ارشادی الساری  ،صفحہ123،مطبوعہ ،مکۃ المکرمہ)

   یونہی تنویر الابصار و درمختار  میں ہے۔ (الدرالمختارمع رد المحتار،کتاب الحج ،جلد3،صفحہ712 ، 713،مطبوعہ کوئٹہ)

   اور تنویر الابصار کی عبارتفی عامۃ ذالک کے تحت ہدایہ کے حوالہ سے آئندہ سال علی التخصیص اسی واجب کی نیت  سے عمرہ لازم ہونے کی علت بیان کرتے ہوئے علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1252ھ/ 1836ء) لکھتے ہیں:لأنه تلافى ‌المتروك ‌في ‌وقته لأن الواجب عليه تعظيم هذه البقعة بالاحرام کما إذا أتاه: أي الميقات محرما بحجة الاسلام في الابتداء، بخلاف ما إذا تحولت السنة ‌لأنه صار دينا في ذمته فلا يتأدى إلا بإحرام مقصود كما في الاعتكاف المنذور، فإنه يتأدى بصوم رمضان في هذه السنة دون العام الثاني“ترجمہ : (نسک واجب  ہونےکے سال کسی بھی حج یا عمرہ سے وہ واجب اس لیے ادا  ہو جائے گا) کیونکہ اس نے وقت کے اندر اندر ایک چھوڑے گئے واجب کی تلافی کر لی ہے، اس لیے کہ اس پر احرام کے ذریعے اس مبارک جگہ کی تعظیم لازم تھی،(یہ ایسے ہی  ہے)جیسے اس صورت میں کہ جب وہ ابتداءً ہی میقات پر فرض حج کے احرام کی حالت میں آتا،(تو وقت پر عمل کرنےوالا کہلاتا)برخلاف اس صورت  کے کہ جب سال گزر جائے، کیونکہ ایسی صورت میں وہ اس کے ذمہ دَین ہو جائے گا،لہٰذا خاص اُسی کے احرام کو مقصود بنا کر ادا کرے گا، جیساکہ منت کے اعتکاف کا حکم ہے،کہ وہ اسی سال رمضان کے روزوں کے ساتھ ادا کیا جاسکتا ہے ، نہ کہ دوسرے سال کے رمضان کے ساتھ ۔(ردالمحتار مع  الدرالمختار، کتاب الحج ، جلد3، صفحہ711 ،مطبوعہ  کوئٹہ)

   اور اِس صورت میں واجب ہونے والے عمرہ کی ادائیگی ہی ضروری ہے،اس کے بغیر چارہ کار نہیں،یعنی دم وغیرہ اس کا بدل نہیں بن سکتا ہے، چنانچہ علامہ ابو المَعَالی  بخاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:616ھ/1219 ء) لکھتےہیں:اذا دخل الآفاقی مکۃ بغیر احرام وھو لا یرید الحج و  العمرۃ …فلزمہ  الاحرام  باحدھما و ماوجب علی الانسان  لا یسقط  الا بادائہ ترجمہ:جب آفاقی مکہ شریف میں بغیر احرام کے داخل ہو،اس حال میں کہ وہ حج یا عمرہ کا ارادہ نہ رکھتا ہو۔۔۔تب بھی اس پر دونوں میں سے کسی ایک  کا احرام باندھنا لازم ہےاور (ایسی صورت میں ) انسان پر جو عمرہ وغیرہ واجب ہو،اس کی ادائیگی کے بغیر وہ ساقط نہیں ہوگا۔(المحیط البرھانی، کتاب   الحج، جلد2 ، صفحہ435 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان)

   یونہی ابو البقاء علامہ محمد بن احمد مکی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:854ھ/1450ء) نےلکھا۔(البحر العمیق، الباب السادس  فی المواقیت ، صفحہ621، 624، مطبوعہ  مؤسسۃ الریَّان، بیروت)

   اور میقات سے احرام کے بغیر گزرنے سے  گنہگار بھی ہوا،جس کی توبہ بھی لازم ہے،چنانچہ ابوالبقاء علامہ محمد بن احمد مکی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:854ھ/1450ء) نےلکھا: فان جاوز الآفاقی  الموضع الذی یجب علیہ الاحرام منہ  غیر محرم اثم  ترجمہ:اگر آفاقی اس جگہ سے بغیر احرام کے گزرا جہاں سے اُسے اِحرام کے ساتھ گزرنا واجب تھا ،تو وہ گناہ کا مرتکب ہوا۔(البحر العمیق، الباب السادس  فی المواقیت، الجزء الاول ، صفحہ618، مطبوعہ  مؤسسۃ الریَّان، بیروت)

   اس تمام مسئلہ کو خلاصۃًبیان کرتے ہوئے صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:میقات کے باہر سے جو شخص آیا اور بغیر احرام مکہ معظمہ کو گیا، تو اگرچہ نہ حج کا ارادہ ہو، نہ عمرہ کا مگر حج یا عمرہ واجب ہو گیا، پھر اگر میقات کو واپس نہ گیا، یہیں احرام باندھ لیا،تو دَم واجب ہے اور میقات کو واپس جاکر احرام باندھ کر آیا،تو دَم ساقط اور مکہ معظمہ میں داخل ہونے سے جو اُس پر حج یا عمرہ واجب ہوا تھا اس کا احرام باندھا اور ادا کیا تو بری الذّمہ ہوگیا۔ یوہیں اگر حجۃ الاسلام یا نفل یا منّت کا عمرہ یا حج جو اُس پر تھا، اُس کا احرام باندھا اور اُسی سال ادا کیا جب بھی بری الذّمہ ہوگیا اور اگر اس سال ادانہ کیا ،تو اس سے بری الذّمہ نہ ہوا، جو مکہ میں جانے سے واجب ہوا تھا۔(بھارِ شریعت ، جلد1،حصہ 6، صفحہ1191،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم