Saie Karte Waqt Marwa Pahar Ki Unchai Par Na Charhain To Hukum

 

سعی کرتے وقت مروہ پہاڑ کی اونچائی پر نہ چڑھیں تو کیا حکم ہے  ؟

مجیب:مولانا محمد علی عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2997

تاریخ اجراء: 11صفر المظفر1446 ھ/17اگست2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر سعی کے ساتویں چکر میں مروہ پہاڑ کی اونچائی پر نہ جائیں، بلکہ تھوڑا سا چڑھیں اور واپس آجائیں  تو کیا عمرہ ادا ہوجائے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر  سعی کے ساتوں پھیروں  میں صفا سے مروہ اور مروہ سے صفا تک جانے  میں بالکل  آخر تک پہنچ جائیں کہ دونوں طرف پاؤں پہاڑیوں کے ساتھ لگالیں ،   اگرچہ اونچائی پر نہ چڑھیں،پھربھی عمرہ   ادا ہوجائے گا ۔کیونکہ سعی کے واجبات میں سے ایک واجب  یہ ہے کہ  صفاسے مروہ اورمروہ سے صفاکی طرف جانے میں ہر بار پوری مسافت طے کرے، پہاڑی پرچڑھناواجبات میں سے نہیں ہے ،لہذاپوری مسافت طے کرلی جائے اورپہاڑی پرنہ چڑھاجائے تواس صورت میں بھی واجب اداہوجائے گااورسعی درست ہوجائے گی ۔

   البتہ! صفا سے مروہ اور مروہ سے صفا تک جانے میں دونوں طرفوں میں  اتنا چڑھنا  کہ کعبہ مشرفہ نظرآجائے، یعنی اگر مکان اور دیواریں  درمیان میں نہ ہوتیں  تو کعبہ معظمہ یہاں سے نظرآتا، یہ سنت ہے،اوراگرکسی وجہ سے ایسی صورت حال  ہوکہ صرف پہاڑی کے قریب کھڑے ہونے سے بھی کعبہ معظمہ نظرآجائے گاتواب قریب کھڑے ہونے سے بھی پہاڑی پرچڑھناپایاجائے گااوراگرمعمولی چڑھنے سے نظر آتا ہو تو معمولی چڑھنابھی کفایت کرے گا،بہت زیادہ اونچائی پرنہیں چڑھناچاہیے۔

   لباب المناسک میں ہے”وقطع جميع المسافة بينهما، وهو: أن يُلْصِقَ عَقِبَيْهِ بهما۔۔۔ أو يُلْصِقَ عَقِبَيه في الابتداء بالصفا وأصابع رجليه بالمروة، وفي الرجوع عكسه“ترجمہ:(سعی کے واجبات میں سے)  صفا ومروہ کے درمیان کی مکمل مسافت کو عبور کرنا بھی ہےاور وہ یہ ہے کہ اپنی دونوں ایڑیوں کو صفاو مروہ کے ساتھ ملائے یا ابتداء میں اپنی ایڑیوں کو صفا کے ساتھ اور اپنے پاؤں کی انگلیوں کو مروہ  کے ساتھ ملائے،اور لوٹنے کی حالت میں اس کے برعکس کرے۔(لباب  المناسک  مع ارشاد الساری ،فصل فی واجبات السعی، ص 253،مطبوعہ پشاور)

   صفا و مروہ پر چڑھنا سنت ہے،واجب نہیں ،چنانچہ لباب المناسک میں ہے”سننہ ۔۔۔ والصعود على الصفا والمروۃ“ترجمہ:صفاو مروہ پہاڑ پر چڑھنا سعی کی سنتوں میں سے ہے ۔(لباب  المناسک مع ارشاد الساری،فصل فی سنن السعی،ص 254،مطبوعہ پشاور)

   لباب و شرح لباب میں ہے”(مكروهاته۔۔۔۔وترك الصعود) أي إذا كان ثم مصعد واحتاج إلى الصعود۔۔۔ لرؤية الكعبة“ترجمہ:سعی کے مکروہات میں سے ہے:(صفا ومروہ پر)چڑھنے کو ترک کرنا،یعنی جبکہ وہاں چڑھنے کی جگہ ہو اور کعبہ کو دیکھنے کے لئے   چڑھنے کی حاجت  ہو۔(لباب المناسک  مع ارشاد الساری،فصل فی مکروھات السعی،ص 256،مطبوعہ پشاور)

   امام  اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فتاوی رضویہ میں اپنے رسالہ "انوار البشارۃ  فی مسائل الحج والزیارۃ " میں حج کا طریقہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :”صفا کی سیڑھیوں پراتنا چڑھو کہ کعبہ معظمہ نظر آئے اور یہ بات یہاں پہلی ہی سیڑھی سے حاصل ہے پھر رخ بہ کعبہ ہو کر دونوں ہاتھ دعا کی طرح پہلے شانوں تک اٹھاؤ اور دیر تک تسبیح  وتہلیل ودرود ودعا کرو کہ محلِ اجابت ہے، یہاں بھی دعا ئے جامع پڑھو، پھر اتر کر ذکر ودرود میں مشغول مروہ کو چلو۔۔۔ دوسرے میل سے نکل کر پھر آہستہ ہو لو یہاں تک کہ مروہ  پر پہنچو، یہاں پہلی سیڑھی چڑھنے بلکہ اس کے قریب کھڑے ہونے سے مروہ پر صعود مل جاتا ہے،یہاں اگر چہ عمارتیں بن جانے سے کعبہ نظر نہیں آتا مگر رُو بہ کعبہ ہوکر جیسا صفا پر کیا تھا کرو، یہ ایک پھیرا ہوا۔“(فتاوی رضویہ،ج 10،ص 742،743،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

   امیراہلسنت  ابو بلال محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ اپنے رسالہ " رفیق الحرمین"  میں فرماتے ہیں: ”اب درود و سلام پڑھتے ہوئے صفا پر اتنا چڑھئے کہ کعبہ معظمہ نظر آجائے اور یہ بات یہاں معمولی سا چڑھنے پر حاصل ہو جاتی ہے، عوام الناس کی طرح زیادہ اوپر تک نہ چڑھئے ۔۔۔ جب دو سر اسبز میل نظر آئے تو آہستہ ہو جائیے اور درمیانہ چال سے  جانب مروہ بڑھے چلئے۔ اے لیجئے ! مر وہ شریف آگیا، عوام الناس دُور اُوپر تک چڑھے ہوئے ہیں۔ آپ اُن کی نقل مت کیجئے ،یہاں پہلی سیڑھی پر چڑھنے  بلکہ  اُس کے قریب زمین پر کھڑے ہونے سے بھی مروہ پر چڑھنا ہو گیا، یہاں اگرچہ عمارات بن جانے کے سبب کعبہ شریف نظر نہیں آتا مگر کعبہ مشرفہ کی طرف منہ کر کے صفا کی طرف اُتنی ہی دیر تک دُعا مانگئے۔" (رفیق الحرمین،ص 113تا121مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم