Nikah Mein Umrah Ko Haq Mehar Muqarrar Karne Ka Hukum

عمرہ کو مہر مقرر کرنے کا حکم

مجیب:مولانا محمد کفیل رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1567

تاریخ اجراء:10رمضان المبارک1445 ھ/21مارچ2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا لڑکی اپنے نکاح کا یہ حق مہر رکھوا سکتی ہے کہ شادی کے بعد شوہر اسے عمرہ کروا دے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عمرہ کروانا مہر میں  نہیں رکھواسکتے ۔  اگر رکھوالیا،  تو مہر ِمثل واجب  ہوگا ۔

   مہر ِمثل سے مراد عورت کے والد کی طرف سےخاندان کی اُس جیسی عورتوں کا جومہر مقرر ہوا،  مثلاً: اس کی  بہن، پھوپی، چچا کی بیٹی وغیرہ کا مہر   اس عورت کے لئے مہرِ مثل ہے۔

   بہارِ شریعت میں ہے:”جو چیز مال متقوم نہیں وہ مَہرنہیں ہو سکتی اور مہر مثل واجب ہوگا، مثلاً مہر یہ ٹھہرا کہ آزاد شوہر عورت کی سال بھر تک خدمت کرے گا یا یہ کہ اسے قرآن مجید یا علمِ دین پڑھا دے گا یا حج و عمرہ کرا دے گا یا مسلمان مرد کا نکاح مسلمان عورت سے ہوا اور مہر میں خون یا شراب یا خنزیر کا ذکر آیا یا یہ کہ شوہر اپنی پہلی بی بی کو طلاق دے دے تو ان سب صورتوں میں مہرِ مثل واجب ہوگا۔  (بہارِ شریعت، حصہ7 ،صفحہ65-66 ،مکتبۃ المدینہ، کراچی )

   اسی میں ہے:”عورت کے خاندان کی اُس جیسی عورت کا جو مہر ہو، وہ اُس کے لئے مہر  مثل ہے ، مثلاً :اس کی بہن ، پھوپھی، چچا کی بیٹی وغیرہا کا مہر۔ “(بہارِ شریعت، حصہ7 ،صفحہ71،مکتبۃ المدینہ کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم