مجیب: محمد عرفان مدنی
عطاری
فتوی نمبر: WAT-1791
تاریخ اجراء: 16ذوالحجۃالحرام1444 ھ/5جولائی2023 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
ہم میقات سے باہرجاب کرتے ہیں، ہم حاجیوں کی خدمت کیلئے احرام
کے بغیر ہی میقات سے گزر کر منی سے قریب
مکہ مکرمہ کے ایک علاقہ عزیزیہ میں گئے اور وہاں تین دن رہے اور پھر واپس اپنی
جگہ آگئے، ہم نےاس سفر میں
عمرہ بھی ادا نہیں کیا ،توکیا ایسی صورت
میں ہم پر دم لازم ہوا یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
آفاقی( یعنی میقات سے باہر
کا رہنے والا شخص) جب مکہ یا حدود ِحرم میں کسی جگہ جانے کا
ارادہ کرے اگرچہ وہ تجارت یا
کسی دوسرے کام کےلئے وہاں جارہا ہو،تو
اُس کےلئے حج یاعمرہ میں سے
کسی ایک کا احرام میقات سے باندھنا اوراس کی
ادائیگی کرنا واجب ہوتا
ہے۔ عزیزیہ چونکہ حرمِ
مکہ کی حدود میں ہے لہذاپوچھی گئی صورت میں جب آپ میقات کے باہر سے آرہے
تھے توعزیزیہ میں داخل ہونے کیلئے آپ
پرمیقات سے حج یا عمرہ میں سےکسی ایک کا
احرام باندھ کر آنا واجب تھا،اب جبکہ آپ بغیر احرام
میقات سے گزرگئے اورمیقات
کی طرف احرام کے لیے
نہیں لوٹے تو اس صورت میں دم لازم ہوگیا اور آپ گنہگار
بھی ہوئے،اس سے توبہ کرنا لازم ہے۔البتہ حج یا عمرہ میں
سے کسی ایک کی ادائیگی تو اب بھی واجب
ہے،لہذااگرآپ اِسی سال (یعنی ذو الحجہ کا مہینہ
ختم ہونے سے پہلے) میقات سے عمرہ کا احرام
باندھ کر مکہ مکرمہ چلے
جائیں اور عمرہ ادا کرلیں یاپھر آئندہ سال میقات سے اُس معین حج یا
عمرہ کے احرام کی نیت کرکےمکہ مکرمہ
جائیں جو حرم میں داخل ہونے سے واجب ہوا تھا اور حج یا
عمرہ ادا کرلیں تو ان دونوں صورتوں میں دم
ساقط ہوجائے گااور حج یا
عمرہ میں سے کسی ایک
کی ادائیگی جو آپ پر
واجب ہوچکی تھی اُس سےبھی آپ برئ الذمہ ہوجائیں گے ۔
لباب المناسک میں ہے:’’)وحکمھا وجوب
الاحرام منھا لاحد النسکین وتحریم تاخیرہ عنھا لمن اراد دخول
مکۃ أو الحرم وان کان لقصد التجارۃأو غیرھا... ووجوب احد
النسکین( ‘‘ترجمہ:میقات
کا حکم یہ ہے کہ جو شخص مکہ
یا حرم میں داخل ہونے کا ارادہ کرے اگرچہ اس کا وہاں جانا تجارت
یا کسی اور وجہ کیلئے
ہو،اُس کیلئےعمرہ یا حج
میں سے کسی ایک کا احرام میقات سے باندھنا واجب ہے
اور (جان بوجھ کر)احرام کو میقات سے مؤخر کرنا ، حرام ہے۔اور(میقات
کے حکم میں سے یہ بھی ہے کہ اس پر) حج یا عمرہ میں
سے کسی ایک کی ادائیگی واجب ہے۔ (لباب المناسک ،فصل فی
مواقیت-الصنف الاول،صفحہ88،دار الکتب
العلمیہ بیروت)
لباب المناسک اور اس کی شرح میں
ہے:’’(من جاوز
وقتہ غیر محرم...فعلیہ
العود)أی فیجب علیہ الرجوع (الی وقت)أی الی
میقات من المواقیت(وان لم یعد فعلیہ دم‘‘ترجمہ:جو شخص
بغیر احرام کی نیت کے میقات سے گزرجائے تو اس پر کسی بھی میقات پر واپس لوٹنا
واجب ہے،اور اگر واپس نہ گیا تو اس پر دم لازم ہوگا۔ (لباب المناسک مع شرحہ،فصل فی
مجاوزۃ المیقات بغیر احرام،صفحہ94،دار الکتب العلمیہ
بیروت)
لباب المناسک اور اس کی شرح میں
ہے:’’(ومن دخل
)أی من اھل الآفاق(مکۃ)أو الحرم(بغیر احرام فعلیہ احد
النسکین)أی من الحج أو العمرۃوکذا علیہ دم
المجاوزۃأو العود(فان عاد الی میقات من عامہ فأحرم...سقط به
مالزمه بالدخول من النسك ودم المجاوزة وان لم ينوعما لزمه...ولو لم يحرم من عامه)أی
لذلک النسک(لم یسقط الا ان ینوی عما لزمہ)أی خصوصا
(بالدخول بغیر احرام) ‘‘ ترجمہ:اور آفاق سے جو شخص مکہ
یا حرم میں بغیر احرام داخل ہوا تواس پر حج یا عمرہ
میں سے کسی ایک کی ادائیگی لازم ہے اور
اسی طرح بغیر احرام میقات سے گزرنے کا دم لازم ہے یا میقات واپس لوٹنا لازم
ہے پھر اگر وہ اسی سال میقات واپس لوٹ گیااور احرام باندھ
لیاتو مجاوزت کا دم اور مکہ یا حرم میں داخل ہونے سے جو نسک اس
پر لازم ہوا تھا وہ ساقط ہوگیا
اگرچہ اس نے لازم ہونے والے نسک کی نیت نہ کی ہو اور اگر اس
لازم ہونے والے نسک کا احرام ،اِس سال نہیں باندھا تو ساقط نہیں ہوا
مگر یہ کہ جب وہ بالخصوص بغیر احرام کے داخل ہونے سے لازم ہونے والے
نسک(عبادت) کی نیت کرلے۔(لباب المناسک مع شرحہ،فصل فی مجاوزۃ
المیقات بغیر احرام،صفحہ98،دار الکتب العلمیہ بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم
کیا 65 سال کی بیوہ بھی بغیر محرم کے عمرے پر نہیں جاسکتی؟
کسی غریب محتاج کی مددکرناافضل ہے یانفلی حج کرنا؟
کمیٹی کی رقم سے حج وعمرہ کرسکتے ہیں یانہیں؟
عورت کا بغیر محرم کے عمرے پر جانے کا حکم؟
ہمیں عمرے پر نمازیں قصرپڑھنی ہیں یا مکمل؟
جومسجد نبوی میں چالیس نمازیں نہ پڑھ سکا ،اسکا حج مکمل ہوا یانہیں؟
جس پر حج فرض ہو وہ معذور ہو جائے تو کیا اسے حج بدل کروانا ضروری ہے؟
کیا بطور دم دیا جانے والا جانور زندہ ہی شرعی فقیر کو دے سکتے ہیں؟