Mard Ke Liye Ahram Ki Halat Mein Boot (Shoes, Joote) Pehnna Kaisa ?

مرد کے لیے حالت احرام میں بوٹ پہننا کیسا؟

مجیب: محمد عرفان مدنی عطاری

فتوی نمبر:WAT-1670

تاریخ اجراء: 03ذوالقعدۃالحرام1444 ھ/23مئی2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا    مرد حالتِ احرام میں  ایسے بوٹ وغیرہ پہن سکتا ہے، جن سے اوپر نیچے سے ٹخنوں سمیت پورا قدم ہی چھپ جاتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     مرد کے لئے احرام کی حالت میں ایسےبوٹ  وغیرہ پہننا شرعا جائز نہیں ،جن سےقدم کے درمیان میں موجودابھری ہڈی سے لے کراوپرتک کا کوئی حصہ دائیں بائیں،سامنےیاپیچھے ،کسی جانب سےچھپ جائے کیونکہ احرام کی حالت میں  مرد کے لیےقدم کے درمیان والی ابھری ہڈی کو اور اس سے اوپر والے کسی  حصے کوکسی بھی جانب سے چھپانے کی اجازت نہیں ہے،لہذاجس بوٹ وغیرہ  سے قدم کے درمیان میں موجودابھری ہڈی سے لے کراوپر تک کا کوئی حصہ ،کسی جانب سےچھپ جاتاہے ،مردکے لیے اسے حالت احرام میں پہننے کی اجازت نہیں ۔

   صحیح البخاری میں ہے” عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، قال: قام رجل فقال: يا رسول الله ماذا تأمرنا أن نلبس من الثياب في الإحرام؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «لا تلبسوا القميص، ولا السراويلات، ولا العمائم، ولا البرانس إلا أن يكون أحد ليست له نعلان، فليلبس الخفين، وليقطع أسفل من الكعبين “ ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنھما سے مروی ہے ،آپ نے فرمایا کہ ایک آدمی نے عرض کی ،یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم !آپ ہمیں اس کے متعلق کیا حکم ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم احرام میں کون سے کپڑے پہنیں؟تو نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:قمیص،شلوار،عمامے  اور قباء نہ  پہنو  اور اگر کسی کے پاس جوتے نہ ہوں تو وہ موزے پہن لے اور موزوں کو کعبین کے نیچے سے کاٹ لے۔ (صحیح البخاری،کتاب جزاء الصید،ج 3،ص 15،دار طوق النجاۃ)

      مختصر الطحاوی میں ہے”ومن احرم من الرجال۔۔۔لا یلبس سراویل ولا خفا۔۔۔ومن لم یجد نعلین فلیلبس خفین بعد ان یقطعھما اسفل من الکعبین “ترجمہ:مردوں میں سے جو احرام باندھ لے تو وہ شلوار و موزے نہ پہنے اور جو شخص جوتے نہ پائے تو وہ موزوں کو کعبین سے نیچے کاٹنے کے بعد موزوں کو پہن لے۔(مختصر الطحاوی ،کتاب الحج،باب ما یجتنبہ المحرم،ص 67،68،69،مطبوعہ حیدر آباد دکن)

         مجد الدین فیروزآبادی (المتوفی 817ھ )القاموس المحيط میں  کعب کے اطلاقات کے حوالے سے لکھتے ہیں:”كُلُّ مَفْصِلٍ لِلْعِظامِ، والعَظْمُ النّاشِزُ فَوْقَ القَدَمِ، والنّاشِزانِ من جانِبَيْها  ترجمہ:ہڈی کے ہر جوڑ ،پاؤں کے اوپر ابھری ہوئی ہڈی،اور اس کے دونوں اطراف کی ابھری ہوئی ہڈیوں کو کو کعب کہتے ہیں۔ (القاموس المحیط، صفحہ131، مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت )

   زین الدین بن ابراہیم بن محمد،المعروف  علامہ ابن نجیم،مصری علیہ الرحمۃ(متوفی970ھ)بحر الرائق میں فرماتے ہیں :” (قوله ولبس القميص والسراويل والعمامة والقلنسوة والقباء والخفين إلا أن لا تجد النعلين فاقطعهما أسفل من الكعبين۔۔۔)۔۔۔ والكعب هنا المفصل الذي في وسط القدم عند معقد الشراك فيما روى هشام عن محمد بخلافه في الوضوء فإنه العظم الناتئ أي المرتفع ولم يعين في الحديث أحدهما لكن لما كان الكعب يطلق عليه وعلى الثاني حمله عليه احتياطا، كذا في فتح القدير أي حمل الكعب في الإحرام على المفصل المذكور لأجل الاحتياط؛ لأن الأحوط فيما كان أكثر كشفا وهو قيما قلنا “ترجمہ:(مصنف کا قول :اور قمیص،شلوار ،عمامہ ،ٹوپی ،قباء اور موزوے پہننے سے بچے مگر جب تو جوتے نہ پائے تو موزوں کو کعبین کے نیچے سے کاٹ لے )اور کعب سے مراد یہاں وہ جوڑ ہے جو وسط قدم میں تسمہ باندھنے کی جگہ ہوتا ہے اس کے مطابق جو ہشام نے امام محمد سے روایت کیا بخلاف وضو کے کہ وہاں کعب سے مراد ابھری ہوئی ہڈی ہے اور حدیث میں ان دونوں میں سے کسی کو معین نہیں کیا گیا لیکن جب کعب کا اطلاق اس پر بھی اور دوسری ہڈی پر بھی ہوتا ہے تو اسی پر احتیاطا محمول کیا جائے گا جیسا کہ فتح القدیر میں ہے یعنی احرام میں کعب کو مذکورہ جوڑ پر محمول کرنا احتیاط کی بناء پر ہےکیونکہ زیادہ احتیاط اس میں ہے کہ زیادہ حصہ کھلا ہو اور وہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جو صورت ہم نے بیان کی ۔ (بحر الرائق،کتاب الحج،باب الاحرام،ج 2،ص 348،دار الكتاب الإسلامي)

   جدالممتارمیں امام اہلسنت امام احمدرضاخان علیہ الرحمۃ(متوفی 1340ھ)  تحریرفرماتے ہیں :" " وقد فسرا هاهنا بمعقد الشراك في وسط الرجل، وهو مفصل الساق والقدم فإذا بقي مكشوفا من كل جانب جاز ستر ما وقع تحته من الصدر والعقب والأطراف جميعا“ترجمہ: اور ان ابھری ہڈیوں کی تفسیر یہاں پر یہ کی گئی ہے کہ جو قدم کے درمیان میں تسمہ باندھنے کی جگہ ہوتی ہے اور یہ پنڈلی و قدم کا جوڑ ہے پس جب یہ ہر جانب سے کھلا رہے تو جو اس کے نچلا حصہ ہے ، اس کا چھپانا ، جائز ہے چاہے وہ قدم کے سامنے کا حصہ ہو یا ایڑی ہو یا بقیہ تمام اطراف ہو۔(جدالممتار،ج04،ص313،مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم