Maqrooz Ka Umrah Ada Karne Ka Hukum

مقروض کا عمرہ کرنے کا حکم

مجیب: مولانا محمد کفیل رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1176

تاریخ اجراء: 06جمادی الاول1445 ھ/21نومبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر قرض بہت لیا ہوا ہو  اور عمرہ کر لیں، تو کیا عمرہ ادا ہو جائےگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   قرض عمرہ کی ادائیگی  صحیح ہونے کیلئے مانع نہیں ہے  ، لہٰذا اگر مقروض شخص عمرہ کرلیتا ہے  تو اس کا عمرہ  ادا ہوجائے گا  تاہم   اگر قرض دینے والے  ادائیگی کا مطالبہ کررہے ہوں، تو عمرہ پر جانے کے بجائے  قرض کی ادائیگی کرنی چاہیئے   کہ باوجودِ وسعت  قرض کی ادائیگی  میں ٹال مٹول کرنے کو حدیثِ پاک میں ظلم قرار دیا گیا ہے۔

   بخاری شریف میں حضرت ہمام بن منبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ”قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:مطل الغنی ظلم“یعنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:صاحبِ مال شخص کا قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔(صحیح بخاری، حدیث 2400، صفحہ 383، مطبوعہ:ریاض)

   مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں :” یعنی جس مقروض کے پاس ادائے قرض کے لیے پیسہ ہو پھر ٹالے، تو وہ ظالم ہے، اسے قرض خواہ ذلیل بھی کرسکتا ہے اور جیل بھی بھجواسکتا ہے،یہ شخص مقروض گنہگار بھی ہوگا کیونکہ ظالم گنہگار ہوتا ہی ہے۔“(مرأۃ المناجیح ،جلد4، صفحہ342، مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ)

   قرض خواہوں سے اجازت لے کر عمرہ پر گئے یا قرض خواہوں سے جو وقت لیا گیا ہے اس پر ادا کردینا ہے اس کے اسباب  بھی ہیں قرض خواہوں کو اعتراض بھی نہیں تو قرض ہوتے ہوئے بھی عمرہ کرسکتے ہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم