فتوی نمبر: HAB-0462
تاریخ اجراء: 22 جمادی الاولیٰ 1446ھ/25نومبر 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتےہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس بارے میں کہ کئی لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ جب طوافِ عمرہ یا نفلی طواف کے لیے مطاف شریف میں جاتےہیں ،تو اس وقت زوال کا مکروہ وقت چل رہا ہوتا ہے ،تو وہ اسی وقت لا علمی میں طواف بھی کرلیتے ہیں اور بعد کے دو نفل بھی پڑھ لیتے ہیں ،اس طرح مکروہ اوقات میں طواف کرلینا اور بعد کے نوافل پڑھنا کیسا ؟اگر کسی نے پڑھ لیے تو کیا حکم ہے؟یہ بھی بتادیں کہ اگر کسی نے فجر و عصر کے وقت میں طواف کیا، تو کیا ان اوقات میں یہ نماز پڑھ سکتا ہے ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
تین مکروہ اوقات (یعنی سورج طلوع ہونے سے لے کر تقریباً20 منٹ بعد تک ،سورج غروب ہونے کے وقت سےتقریبا ً20 منٹ پہلے اورضحوۂ کبریٰ یعنی نصف النہار شرعی سے لے کرسورج ڈھلنے تک، جسے عوام زوال کا وقت کہتی ہے )میں طواف کرنا ،تو بالکل جائز ہے ،اس میں کوئی حرج نہیں ،جبکہ ان اوقات میں اس کے بعد والی دو رکعت نماز ادا کرنا ،جائز نہیں ہے ،بلکہ ان اوقات میں یہ نماز ادا ہی نہیں ہوگی ،یہاں تک کہ اگر کسی نے ان اوقات میں یہ نماز پڑھی ،تو وہ گنہگار ہوگا اور ساتھ ہی واجب ذمہ پر باقی رہے گا ،لہٰذا اس پر لازم ہوگا کہ وہ کسی مباح وقت میں اس نماز کو دوبارہ ادا کرے،جبکہ نمازِ فجر کے پورے وقت میں اور نماز ِ عصر کے فرض پڑھ لینے کے بعد (اگرچہ ابھی مکروہ وقت شروع نہ ہوا ہو )یہ نماز ادا کرنا مکروہ تحریمی ،ناجائز و گناہ ہے ،لہٰذا اگر کسی نے شروع کردی ،تو اس پر لازم ہوگا کہ نماز کو توڑ کر دوبارہ مباح وقت میں ادا کرے ۔
تین مکروہ اوقات میں ممانعتِ نماز کے متعلق سنن ترمذی شریف میں ہے :”عن عقبة بن عامر الجهنی قال: ثلاث ساعات كان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم ينهانا أن نصلی فيهن: حين تطلع الشمس بازغة حتى ترتفع، وحين يقوم قائم الظهيرة حتى تميل، وحين تضيف الشمس للغروب حتى تغرب “ترجمہ:حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سےروایت ہے ،فرماتے ہیں کہ تین اوقات ایسے ہیں جن میں نماز پڑھنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں منع فرمایا :جب سورج طلوع ہوکر روشن ہو ،یہاں تک کہ بلند ہوجائے اور جب نصف النہار کا وقت ہو یہاں تک کہ سورج ڈھل جائے اور جب سورج غروب کے قریب ہو یہاں تک کہ مکمل غروب ہوجائے ۔(سنن الترمذی ،ج02،ص 340، دار الغرب الإسلامی، بيروت)
فجر کے وقت میں اور عصر کے بعد نمازِ نفل کی ممانعت کے متعلق صحیح بخاری شریف میں ہے:’’ عن ابن عباس، قال: شهد عندی رجال مرضيون وأرضاهم عندی عمر،نھی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم عن الصلوۃ بعد الصبح حتی تشرق الشمس وبعد العصر حتی تغرب‘‘ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،کہتے ہیں کہ میرے پاس پسندیدہ لوگوں نے شہادت دی جن میں سب سے زیادہ پسندیدہ ہستی حضرت عمر ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے طلوعِ صبح کے بعد طلوعِ آفتاب تک اور عصر کے بعد غروبِ آفتاب تک (نفل)نماز سے منع فرمایا ہے۔ (صحیح البخاری، ج01، ص120، دار طوق النجاة )
ان اوقات میں نماز ِ طواف منع جبکہ طواف جائز ہے ،چنانچہ بحر الرائق میں ہے:”وأطلق الطواف فأفاد أنه لا يكره فی الأوقات التی تكره الصلاة فيها؛ لأن الطواف ليس بصلاة حقيقة“ترجمہ:اور مصنف علیہ الرحمۃ نے طواف کو مطلق ذکر کیا جس میں یہ افادہ کیا ہے کہ جن اوقات میں نماز مکروہ ہے ،ان میں طواف مکروہ نہیں ہے ،کیونکہ طواف حقیقی اعتبار سے نماز نہیں ۔(البحر الرائق شرح کنز الدقائق ،ج 2،ص 354،دار الکتاب الاسلامی )
درمختار و رد المحتار میں ہے:”(ثم صلى شفعا) أی ركعتين(فی وقت مباح) قيد للصلاة فقط فتكره فی وقت الكراهة بخلاف الطواف، والسنة الموالاة بينهما وبين الطواف، فيكره تأخيرها عنه إلا فی وقت مكروه ولو طاف بعد العصر يصلی المغرب، ثم ركعتی الطواف، ثم سنة المغرب۔۔ مر فی أوقات الصلاة من أن الواجب، ولو لغيره كركعتی الطواف والنذر لا تنعقد فی ثلاثة من الأوقات المنهية أعنی الطلوع والاستواء والغروب، بخلاف ما بعد الفجر، وصلاة العصر فإنها تنعقد مع الكراهة فيهما “ترجمہ:پھر بعدِ طواف مباح وقت میں دو رکعت نماز پڑھے ،مباح وقت کی قید صرف نماز کے متعلق ہے کہ نماز تو وقت ِ کراہت میں مکروہ ہے نہ کہ طواف اور ان دو رکعتوں اور طواف کے درمیان موالات یعنی بعدِ طواف اس نماز کو فوراً ادا کرنا سنت ہے ،لہٰذا طواف کے بعد اس نماز میں تاخیر کرنا مکروہ ہے، مگر یہ کہ مکروہ وقت ہو توتاخیر مکروہ نہیں اور اگر کسی نے عصر کے بعد طواف کیا، تو وہ پہلے نماز مغرب پڑھ لے ،پھر طواف کی یہ دو رکعتیں پڑھے، پھر مغرب کی سنتیں پڑھے ۔۔باب اوقات الصلوٰۃ میں یہ بات گزرچکی ہے کہ واجب لغیرہ جیسے طواف کی دو رکعتیں اور منت کی نماز بھی ان تین ممنوع اوقات یعنی طلوع و غروب و استواء کے وقت منعقد نہیں ہوتی برخلاف طلوع ِ فجر اور نماز عصر کے بعد کہ ان اوقات میں یہ نماز کراہت کے ساتھ منعقد ہوجاتی ہے ۔(رد المحتارعلی الدر المختار،ملتقطا ،ج02،ص 499،دار الفکر )
مبسوط امام سرخسی میں ہے :”وإذا طاف قبل طلوع الشمس لم يصل حتى تطلع الشمس، وقد بينا فی كتاب الصلاة أن ركعتی الطواف واجب بسبب من جهته كالمنذور، وذلك لا يؤدى عندنا بعد طلوع الفجر قبل طلوع الشمس، ولا بعد العصر قبل غروب الشمس.وقد روی أن عمر رضی اللہ عنه طاف قبل طلوع الشمس ثم خرج من مكة حتى إذا كان بذی طوى، وارتفعت الشمس صلى ركعتين ثم قال: ركعتان مكان ركعتين“ترجمہ:اور جب کوئی سورج طلوع ہونے سے پہلے طواف کرے ،تو سورج خوب طلوع ہونے تک نماز نہ پڑھے اور ہم نے کتاب الصلوٰۃ میں یہ بیان کردیا ہے کہ طواف کی دو رکعتیں خود بندے کی جہت سے واجب ہیں، جیسے نذر کی نماز اور ایسی نماز طلوع صبح صادق کے بعد سورج طلوع ہونےسے پہلے نہیں ادا کی جاسکتی اور نہ ہی عصر کے بعد غروب شمس سے پہلے پڑھی جاسکتی ہے اور بلا شبہ حضرت عمر فارو ق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے سورج طلوع ہونے سے پہلےطواف کیا ،پھر مکہ سے چلے یہاں تک کہ جب مقامِ ذی طویٰ میں پہنچے تو وہاں سورج بلند ہونے کے بعد دو رکعتیں پڑھیں، پھر فرمایا کہ یہ دو رکعتیں اُن دو رکعتوں کی جگہ ہیں۔ (المبسوط للامام السرخسی ،ج04،ص47،دار المعرفۃ ،بیروت)
واجباتِ حج کی نہایت آسان ، منفرداور مستند کتاب بنام’’27واجبات حج‘‘میں طواف کی دو رکعتوں کے مفتی علی اصغر صاحب زید مجدہ لکھتے ہیں :”تین اوقات مکروہہ یعنی طلوع آفتاب سے تقریباً 20 منٹ بعد تک،استواء شمس سے سورج ڈھلنے تک جسے عرفِ عام میں زوال کا وقت کہتے ہیں اور غروب آفتاب سے پہلے کے تقریباً 20 منٹ میں یہ نماز پڑھنے سے ادا ہی نہیں ہوتی یعنی یہ نماز مکروہ وقت میں پڑھنے کے سبب ذمے سے ساقط نہیں ہوگی،بلکہ اسے مباح وقت میں پڑھنا بدستور واجب رہتا ہے۔۔اوپر ان اوقات کا بیان ہوا کہ جن میں کوئی نماز نہیں ہوسکتی ما سوائے آج کی عصر کے ۔طواف کی نماز چونکہ واجب لغیرہ ہے ،اس لیے چند امور میں یہ نفل جیسے احکام رکھتی ہے ،لہٰذا وقتِ فجر سے طلوع آفتاب تک اور نمازِ عصر کے بعد سے لے کر غروبِ آفتاب سے تقریباً 20 منٹ پہلے تک ان دو رکعتوں کا پڑھنا مکروہ تحریمی ہے ،یعنی اگر پڑھنا شروع کردی ،تو یہ نماز توڑ کر کسی مباح وقت میں پڑھنا واجب ہے۔‘‘(27 واجبات حج اور تفصیلی احکام،ص 169،170، مکتبۃ المدینہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیا 65 سال کی بیوہ بھی بغیر محرم کے عمرے پر نہیں جاسکتی؟
کسی غریب محتاج کی مددکرناافضل ہے یانفلی حج کرنا؟
کمیٹی کی رقم سے حج وعمرہ کرسکتے ہیں یانہیں؟
عورت کا بغیر محرم کے عمرے پر جانے کا حکم؟
ہمیں عمرے پر نمازیں قصرپڑھنی ہیں یا مکمل؟
جومسجد نبوی میں چالیس نمازیں نہ پڑھ سکا ،اسکا حج مکمل ہوا یانہیں؟
جس پر حج فرض ہو وہ معذور ہو جائے تو کیا اسے حج بدل کروانا ضروری ہے؟
کیا بطور دم دیا جانے والا جانور زندہ ہی شرعی فقیر کو دے سکتے ہیں؟