Jawan Larki Ka Apni Walida Aur Mamu Ke Larke Ke Sath Umrah Par Jana Kaisa?

جوان لڑکی کا اپنی والدہ اور ماموں کے لڑکے کے ساتھ عمرے پر جانا کیسا ؟

مجیب:مولانا شفیق صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Aqs-1585

تاریخ اجراء:28شعبان المعظم1440ھ/04 مئی2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک خاتون اپنے بھتیجے کے ساتھ عمرے پر جارہی ہے ۔اس خاتون کی ایک جوان بیٹی بھی ہے ،وہ خاتون چاہتی ہے کہ یہ بھی ہمارے ساتھ عمرے پر چلی جائے ،تو کیا اس لڑکی کا یوں سفر کرنا، جائز ہے یا نہیں اور والدہ کے ساتھ ہونے کی وجہ سے کچھ چھوٹ ملے گی یا نہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    پوچھی گئی صورت میں وہ خاتون تو اپنے بھتیجے کے ساتھ سفر کر سکتی ہے ،مگر اس کی بیٹی نہیں جاسکتی ،والدہ کے ساتھ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ،لڑکی کےلیے اس کا اپنا محرم کا ہونا ضروری ہے ، جبکہ ماموں زاد غیر محرم ہوتے ہیں اوران سے پردہ لازم ہے ، لہٰذا وہ خاتون خود جانا چاہے ، تو جاسکتی ہے، مگر اپنی بیٹی کو ساتھ نہیں لے جاسکتی ، کیونکہ شریعت مطہر ہ میں کسی بھی عورت کو شوہر یا محرم کے بغیر شرعی مسافت یعنی  92کلومیٹر کی مسافت پر واقع کسی جگہ جانا حرام ہے ، خواہ وہ سفر حج و عمرہ کی غرض سے ہو یا کسی اور مقصد کے لیے ہو ۔

    صحیح مسلم میں ہے:” عن ابی سعید الخدری قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لا یحل لامرأۃ تؤمن باللہ و الیوم الاخر ان تسافر سفراً یکون ثلاثۃ ایام فصاعداً الا ومعھا ابوھا او ابنھا او زوجھا او اخوھا او ذومحرم منھا “ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : جو عورت اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہے ، اس کے لیے تین دن یا اس سے زیادہ کا سفر کرنا حلال نہیں ہے ، مگر  جبکہ اس کے ساتھ اس کا باپ یا بیٹا یا شوہر یا بھائی یا اس کا کوئی محرم ہو ۔

(الصحیح لمسلم ، باب سفر المرأۃ مع محرم الی حج وغیرہ ، جلد 1 ، صفحہ 434 ، مطبوعہ کراچی  )

    فتاویٰ عالمگیری میں ہے:”و منھا المحرم للمراۃ شابۃ کانت او عجوزاً اذا کانت بینھا و بین مکۃ مسیرۃ ثلاثۃ ایام “ ترجمہ: اور عورت کے لئے (حج  فرض ہونے کے لیے)محرم کاساتھ  ہونا شرط ہے،عورت جوان ہو یا بوڑھی،جبکہ اس کے اور مکۃ المکرمہ کے درمیان تین دن کا فاصلہ ہو۔“                                        

(الفتاویٰ الھندیہ ، کتاب الحج ، جلد 1،صفحہ 218، 219،مطبوعہ کوئٹہ)

    سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں : ” عورت اگرچہ عفیفہ ( یعنی پاکدامن ) یا ضعیفہ ( یعنی بوڑھی ) ہو ، اسے بے شوہر یا محرم سفر کو جانا ، حرام ہے ۔  اگر چلی جائے گی ، گنہگار ہوگی ، ہر قدم پر گناہ لکھا جائے گا ۔ “

( فتاویٰ رضویہ ، جلد 10 ، صفحہ 706 ، 707 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

    صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”عورت کو مکہ تک جانے میں تین دن یا زیادہ کا راستہ ہو تو اس کے ہمراہ شوہر یا محرم ہونا شرط ہے،خواہ وہ عورت جوان ہو یا بڑھیا۔محرم سے مراد وہ مرد ہے جس سے ہمیشہ کے لئے اس عورت کا نکاح حرام ہے،خواہ نسب کی وجہ سے نکاح حرام ہو،جیسے باپ،بیٹا،بھائی وغیرہ یا دودھ کے رشتہ سے نکاح کی حرمت ہو،جیسے رضاعی بھائی،باپ،بیٹا وغیرہ یا سسرالی رشتہ سے حرمت آئی،جیسے خسر،شوہر کا بیٹا وغیرہ۔“

(بھار شریعت،جلد1،صفحہ 1044،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

    ماموں زاد وغیرہ سے پردہ کرنے سے متعلق اعلی حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں :’’جیٹھ، دیور، بہنوئی ، پھپا، خالو، چچازاد، ماموں زاد، پھپی زاد ، خالہ زاد بھائی یہ سب لوگ عورت کے لئے محض اجنبی ہیں۔“

(فتاوی رضویہ ، جلد22 ، صفحہ217 ، رضافاؤنڈیشن ، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم