Kiraye Par Diye Hue Ghar Ki Wajah Se Hajj Farz Hoga?

 

کرائے پر دیے ہوئے گھر کی وجہ سے حج فرض ہوگا؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:HAB-0407

تاریخ اجراء: 15صفر المظفر1446ھ/21 اگست2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے كے بارے میں کہ میرے والد صاحب ریٹائر ہوئے،تو انہوں نے گریجویٹی میں ملنے والی رقم سے ایک گھر خریدا،ہمارا اپنا ایک گھر پہلے سے ہے جس میں ہم رہتے ہیں اور دوسرےگھر کو کرائے پر دے دیا ، تاکہ ریٹائرمنٹ کی وجہ سے آمدنی میں  جو کمی آئی ،وہ کسی حد تک پوری ہوسکے ،میرے والد صاحب کو پِنشن ملتی ہے، لیکن وہ ہمارے اخراجات کو کافی نہیں ہوتی،اس کے ساتھ مکان کا کرایہ ملتا ہے، تو اخراجات پورے ہوتے ہیں،اس کے علاوہ میرے والد صاحب کے پاس کسی طرح کا کوئی مال موجود نہیں ہے،ایسی صورت میں ان  پر کرائے پر دیئے ہوئے مکان کی وجہ سے حج فرض ہوگا؟ہمارے ایک عزیز نے بتایا  ہے  کہ کرائے پر دیئے ہوئے گھر کی وجہ سے بھی حج فرض ہوجاتاہے،کیا ان کی بات درست ہے؟برائے کرم رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بیان کردہ صورت میں آپ کے والد پر حج فرض نہیں  ہے کہ حج کےفرض ہونے کے لیے ایک شرط  یہ ہےکہ وہ شخص حاجت سے زائداتنے مال کا مالک ہوجو حج کے لیے آنے جانے ، وہاں کھانےپینے اور رہائش کے ضروری اخراجات ،نیز اتنی مدت کے لیےاس کے اہل و عیال کے نان ونفقہ کے اخراجات کو کافی ہو،اور پوچھی گئی صورت میں آپ کے والد صاحب نے جو گھر کرائے پر دیا ہوا ہے، اس کی آمدن  پر آپ لوگوں کا گزر بسر موقوف ہے،اس وجہ سے وہ مکان حاجت سے زائد شمار نہیں کیا جائے گا۔

      آپ کے عزیز نے جو مسئلہ بتایا وہ اس صورت میں ہے،جبکہ کرائے پر دیے ہوئے مکان کی آمدن پر گزر بسر  موقوف نہ ہو،ایسی صورت میں وہ مکان ضرور  حاجت سے زائد شمار  ہوگا،اوراگر اس کی قیمت بیان کردہ اخراجات کے لیے کافی ہے، تو  حج فرض ہوجائے گا حتی کہ اگر مکان کے بیچنے کے علاوہ حج پر جانے کی کوئی صورت نہ ہو، تو اب اس مکان کو بیچ کر حج پر جانا لازم ہو گا۔

         حج کے وجوب کے لیے حاجت سےزائد مال کا ہونا شرط ہے،چنانچہ فتاوی رضویہ میں ہے:”مال جملہ حاجات سے فاضل آنے جانے کے قابل باتفاق  فقہائے کرام شرط وجوب ہے کہ بے  اس کے حج واجب ہی نہیں ہوتا۔“(فتاوی رضویہ،جلد01،صفحہ699،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

         حاجت کی وضاحت کے حوالے سے بہار شریعت میں ہے:”سفر خرچ کا مالک ہو اور سواری پر قادر ہو۔سفر خرچ اور سواری پر قادر ہونے کے یہ معنی ہیں کہ یہ چیزیں اُس کی حاجت سے فاضل ہوں یعنی مکان و لباس و خادم اور سواری کا جانور اور پیشہ کے اوزار اور خانہ داری کے سامان اور دَین سے اتنا زائد ہو کہ سواری پر مکہ معظمہ جائے اور وہاں سے سواری پر واپس آئے اور جانے سے واپسی تک عیال کا نفقہ اور مکان کی مرمت کے لیے کافی  مال چھوڑجائے ۔ “(بھار شریعت ملتقطاً، جلد1، حصہ6، صفحہ1039،1040، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   کرائے پر دی ہوئی ایسی زمینیں جن کی آمدنی پرگزر بسر موقوف ہے،فقہاء نے ایسی زمینوں کی وجہ سے حج کو لازم قرار نہیں دیا جس سے واضح ہوتا ہے کہ اسے حاجت سے زائد شمار نہیں کیا گیا،چنانچہ ’’النتف فی الفتاوی‘‘(جسے متن کی حیثیت حاصل ہے) میں ہے:”صاحب الضيعة، وتكون قيمة الضيعة مثل الزاد والراحلة أو أكثر إلا أنه يحتاج إلى غلتها أو يحتاج عياله فليس عليه الحج ۔ولو أن غلة بعض الضيعة تكفيه وعياله وقيمة بعض الباقی يكفيه عن الزاد والراحلةفإن عليه أن يحج“زمیندارکہ  جس کی زمین کی قیمت حج کے زادِ راہ اور سواری جتنی  یا اس سے زائد ہو،لیکن اسے  یا اس کے عیال کو اس کی آمدن کی ضرور ت ہے،تو اس پر حج لازم نہیں ہے،اور اگر  بعض زمین کی آمدنی اسے اور اس کے عیال کو کافی ہے،اوربقیہ زمین کی آمدنی زادِ راہ اور سواری کے لیے کافی ہے، تو اس پر حج لازم ہوگا۔(النتف فی الفتاوی،صفحہ131،دار الکتب العلمیہ ،بیروت)

   ’’بحر العمیق‘‘میں ہے:”وفی القنیۃ لہ ارض و عقار و کرم یستغلھا او حوانیت یستغلھا و یکفیہ و عیالہ فی السنۃ غلۃ بعضھا، وفی قیمۃ بقیۃ البعض الآخر وفاء بما یحج لزمہ الحج“قنیہ میں ہے:کسی کی مِلک میں زمین،عقار(غیر منقولی جائداد)،انگور کے باغ  یادکانیں ہوں،جنہیں اس نے کرائے  پر دیا ہوا ہو،اور بعض زمین کی آمدن اس کے  او ر اس کے عیال کے اخراجات کو کافی ہے،اور بعض دوسری  جائداد کی قیمت  حج کے اخراجات کے  لیے کافی ہے،تو اس پر حج لازم ہے۔(البحر  العمیق،جلد01،صفحہ385،مؤسسۃ الریان)

   خرانۃ المفتیین،فتاوى ہندیہ،تتارخانیہ اور قاضی خان میں ہے،واللفظ لقاضی خان:”وإن كان صاحب ضيعة إن كان له من الضياع ما لو باع مقدار ما يكفی الزاد والراحلة ذاهبا وجائيا ونفقة عياله، وأولاده ويبقى له من الضيعة قدر ما يعيش بغلة الباقی يفترض عليه الحج، وإلا فلا“زمیندارجس کی کچھ زمینیں ایسی ہوں کہ جنہیں اگر وہ بیچ دے، تو اس کی قیمت حج کےزاد ِ راہ،آنے جانے کی سواری اور  اس کے عیال  و اولادکے اخراجات کو کافی ہوگی،اور اس کے بعد بھی اس کی کچھ زمین ایسی رہ جائے گی،جس کی آمدنی سے وہ زندگی گزار سکتا ہے،تو اس پر حج فرض ہے،ورنہ نہیں۔(الفتاوی الخانیہ،جلد01،صفحہ250،مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم