Khana Kaba Ke Ghilaf Ki Tareekh Aur Qeemti Ghilaf Charhane Ki Tafseel

خانہ کعبہ کے غلاف کی تاریخ اورقیمتی غلاف  چڑھانے کی تفصیل

مجیب: ابو احمد محمد انس رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-1484

تاریخ اجراء: 18شعبان المعظم1444 ھ/11مارچ2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ کعبۃ اللہ پر سب سے پہلے غلاف کس نے چڑھایا تھا۔اور کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا کیا ہے۔دوسرا یہ کہ آج کل غلاف کعبہ کو سونے اور چاندی کے تار لگائے جاتے ہیں ،ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں ۔کچھ معترضین کا کہنا ہے کہ اس سے بہتر ہے کہ غریبوں کی مدد کی جائے ۔کیا ایسا کہنا درست ہے یا نہیں۔ بینواتوجروا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   آغاز اسلام سے پہلے بھی   بیت اللہ شریف  پر غلاف موجود تھااور مختلف ادوار میں مختلف لوگوں نے  بیت اللہ پر غلاف چڑھائے  جن کا تذکرہ  تاریخ اور شروح  حدیث کی کتب میں موجو د ہے۔

   سب سے پہلے  بیت  اللہ شریف  پر غلا ف کس نے چڑھایا؟ اس بارے میں مختلف اقوال ہیں:

   (الف)  ایک قول کے مطابق حضرت اسماعیل علیہ السلام نے سب سے پہلے چڑھایا۔(ب)ایک قول کے مطابق    اسد تبع الحمیری  نے  سب سے پہلے چڑھایا ۔(ج)اور ایک قول کے مطابق  عدنان بن اد دنے چڑھایا ۔ یااس کے زمانہ میں چڑھایاگیا۔

   حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی  بیت اللہ شریف پر  غلاف چڑھایا اسی طرح آپ کے بعد حضرت ابوبکر ،حضرت عمر و حضرت عثمان ، حضرت امیر معاویہ ،حضرت عبداللہ بن زبیر  رضی اللہ عنھم نےاپنے  ادوار میں غلا ف چڑھا یا ان کے بعد  مختلف اسلامی بادشاہوں نے   اپنے  ادوار میں غلاف چڑھایا اور یہ سنت اب تک چلی آرہی ہے  ۔

   فتح الباری میں  ہے :’’ روى عبد الرزاق عن بن جريج قال بلغنا أن تبعا أول من كسا الكعبة الوصائل فسترت بها قال وزعم بعض علمائنا أن أول من كسا الكعبة إسماعيل عليه السلام وحكى الزبير بن بكار عن بعض علمائهم أن عدنان أول من وضع أنصاب الحرم وأول من كسا الكعبة أو كسيت في زمنه"ترجمہ:عبدالرزاق نے ابن جریج  سے روایت کیا  انہوں نے  فرمایا  کہ  ہمیں یہ بات پہنچی  کہ    تبع  وہ شخص  ہےکہ جس نے سب سے پہلے   کعبہ کو یمنی چادر  کا غلاف پہنایا اور کعبہ اس کے ساتھ چھپ گیا ، فرمایا  کہ  ہمارے بعض علما ء نے گمان کیا کہ   سب  سے پہلے  جس نے کعبہ کو غلاف  پہنایا وہ  اسماعیل علیہ السلام ہیں ، اور زبیر بن بکار  نے بعض علمائے  کرام سے  حکایت کیا  ہے کہ عدنا ن وہ شخص ہےکہ جس نے  سب سےپہلے حرم کےپتھروں کو رکھا  اور   سب سے پہلے کعبہ  کو  غلاف پہنایا یا اس کے زمانہ میں غلاف پہنایا گیا ۔(فتح الباری  ،جلد3،صفحہ459، بیروت )

   عمدۃ القاری میں ہے :’’ أول من كساها عدنان بن أدد، وزعم الزبير أن أول من كساها الديباج عبد الله بن الزبير، وذكر الماوردي: أن أول من كساها الديباج خالد بن جعفر بن كلاب ۔۔۔۔۔ وفي كتاب ابن إسحاق: أول من حلاها عبد المطلب بن عبد مناف۔۔۔ وعن ليث بن أبي سليم، قال: كانت كسوة الكعبة على عهد رسول الله، صلى الله عليه وسلم، الانطاع والمسوح. وقال ابن دحية: كساها المهدي القباطي والخز والديباج، وطلى جدرانها بالمسك والعنبر من أسفلها إلى أعلاها. وقال ابن بطال: قال ابن جريج: زعم بعض علمائنا أن أول من كساها إسماعيل، عليه السلام، وحكى البلاذري: أن أول من كساها الأنطاع عدنان بن أدد، وروى الواقدي عن إبراهيم بن أبي ربيعة، قال: كسي البيت في الجاهلية الأنطاع، ثم كساه رسول الله صلى الله عليه وسلم، الثياب اليمانية، ثم كساه عمر وعثمان القباطي، ثم كساه الحجاج الديباج. وقال ابن إسحاق: بلغني أن البيت لم يكس في عهد أبي بكر وعمر، يعني: لم يجدد له كسوة. وقال عبد الرزاق عن ابن جريج: أخبرت أن عمر، رضي الله تعالى عنه، كان يكسوها القباطي. وأخبرني غير واحد أن النبي صلى الله عليه وسلم كساها القباطي والحبرات، وأبو بكر وعمر وعثمان، رضي الله تعالى عنهم، ۔۔۔۔۔۔ وكسيت في أيام الفاطميين الديباج الأبيض، وكساها السلطان محمود بن سبكتكين ديباجا أصفر، وكساها ناصر العباسي ديباجا أخضر، ثم كساها ديباجا أسود، فاستمر إلى الآن"یعنی سب سے پہلے جس نے  کعبہ کو غلاف پہنایا  وہ عدنا  ن بن ادد ہے ،اور زبیر نے گمان کیا کہ  سب سے پہلے ریشم کا غلا ف جس نے کعبہ کو پہنایا وہ  عبداللہ بن زبیر ہیں  ،اورماوردی نے  ذکر کیا کہ سب سے پہلے ریشم کا غلا ف جس نے کعبہ کو پہنایا وہ   خالد بن جعفر   بن کلاب ہے ۔۔۔ اور ابن اسحاق کی کتاب میں ہے  : سب سے پہلے  کعبہ کو جس نے  زیور پہنایا وہ عبد المطلب بن عبد مناف ہیں ۔۔۔ اور لیث بن  ابی سلیم  سے  روایت ہے  انہوں نے فرما یا کہ  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے مبارک زمانہ میں  کعبہ کا غلاف  چمڑے اور اونی کپڑے کا ہوتا تھا اور ابن دحیہ نے کہا کہ  مھدی نے  کعبہ کو قباطی ،ریشمی اونی اور ریشمی کپڑےکا غلاف پہنایا اور کعبہ کی دیواروں  کی دیواروں پر اوپر سے نیچے تک  مشک و عنبر  ملاجاتا ،اور ابن بطال نے کہا: ابن جریح نےفرمایاکہ  ہمارے بعض علماء نے گمان کیا ہےکہ   سب سے پہلے  جس نے کعبہ کو  غلاف  پہنایا وہ  اسماعیل علیہ السلام ہیں ، اور بلاذری نے  حکایت کیا کہ  سب سے پہلے جس نے  کعبہ کو چمڑےکا غلاف پہنایا وہ  عدنا ن بن ادد ہے ،اور واقدی نے  ابراہیم  بن ابی ربیعہ  سے روایت کیا  انہوں نے فرمایا کہ   زمانہ جاہلیت میں  بیت اللہ شریف کو چمڑےکا غلاف پہنایاگیا ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے  اس کو یمنی کپڑےکا غلاف پہنایا ،پھر  عمر و عثما ن رضی اللہ عنہ نے  قباطی کپڑےکا غلاف  پہنایا  پھر حجاج نے ریشم کا غلاف پہنایا ، اور عبدالرزاق نے ابن جریج  کے حوالے سے کہا کہ   مجھے  خبر پہنچی کہ   عمر رضی اللہ  عنہ  کعبۃ اللہ کو قباطی  کپڑےکا غلاف پہناتے تھے ،  اور ایک سے زائد لوگوں نے  مجھے خبر دی کہ   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے   قباطی او ر  یمنی  کپڑے کا غلاف  پہنایا اورابوبکر وعمر وعثمان رضی اللہ عنھم نے بھی ۔۔۔۔اور فاطمیوں کے زمانہ میں سفید ریشمی کپڑے  کا  غلاف پہنایا ، سلطان محمود بن سبکتکین  نے پیلے رنگ کے ریشمی کپڑےکا  غلاف پہنایا اور ناصر عباسی  نے  سبز رنگ  کے ریشمی کپڑےکا غلاف پہنایا  پھر اسے  کالے رنگ کے ریشمی کپڑے کا غلاف  پہنایا اور یہ  سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔(ملخص از عمدۃ القاری ،جلد 9،صفحہ 234، بیروت )

جہاں تک  غلاف پرسونے چاندی کی تارلگانے کامعاملہ ہے ،تواس کی تفصیل یہ ہےکہ:

   بیت اللہ شریف   شعائر اللہ  ہے اور شعائر اللہ کی تعظیم  کا    حکم قرآن پاک  میں موجود ہےبلکہ اسے  دلوں کا تقوی قرار دیا گیا ہے  اسی لیےبیت اللہ شریف  کی عظمت  کے اظہار کے لیے   اس پر   اعلی قسم کے غلاف چڑھائے جاتے ہیں جیسا کہ قرآن  پاک کو غلاف  میں رکھا جاتا ہےلہذا  سونے چاندی، یا ریشم کے تار سے بنا ہواغلاف  چڑھانے میں کوئی حرج نہیں ہے معترض کا اعتراض  بالکل بے جا اور غلط ہے  کہ  شرعا یہ جائز ہے پھر  بیت اللہ شریف  پر    روزانہ کی بنیاد  پر غلاف نہیں چڑھایا جاتا بلکہ سال میں ایک مرتبہ تبدیل کیاجاتاہے جبکہ غریبوں کی مدد روزانہ   کی بنیاد  پر ہزاروں لاکھوں لوگ  کر رہے ہیں پھر لوگ اپنے آپ کو اوراپنے گھروں کو سجانے سنوارنےپر لاکھوں کروڑوں روپے  خرچ کر دیتے ہیں اس بارے میں کسی کو اعتراض نہیں سوجھتالہذاایسی بات کرنا کسی بنیاد پر بھی درست نہیں ہے۔    

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم