Jeddah Ka Rehaishi Umrah Ka Ihram Kahan Se Bandhega ?

جدہ کا رہائشی عمرے کا احرام کہاں سے باندھے گا؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13073

تاریخ اجراء:        14ربیع الثانی1445 ھ/30اکتوبر 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ زید  پاکستانی شہری ہے،  کام کے سلسلے میں فی الحال جدہ میں رہائش پذیر ہے۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ زید اگر جدہ میں اپنی رہائش  گاہ سے ہی عمرے کا ارادہ کرے،  تو اس صورت میں زید عمرے کا احرام کہاں سے باندھے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں زید کے لیے بہتر ہے کہ وہ عمرے کا احرام اپنے گھر سے باندھے۔

   مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ جدہ چونکہ میقات کے اندر واقع ہے اور میقات کے اندر رہنے والوں کے احرام کی جگہ حل یعنی بیرونِ حرم ہے، پس یہاں کے افراد اگر حج یا عمرے کا ارادہ کریں تو بیرونِ حرم یعنی حرم شروع ہونے سے پہلے کسی بھی جگہ میں حج یا عمرے کا احرام باندھ سکتے ہیں مگر اپنے گھر سے احرام باندھنا بہتر ہے۔

   میقات کے اندر رہنے والوں کے احرام کی جگہ حل ہے۔ چنانچہ المختارمیں ہے: ”ومن كان داخل الميقات فميقاته الحل“یعنی جومیقات کے اندررہنے والاہے،تواس کی میقات حل ہے۔

   مذکورہ بالا عبارت  کے تحت الاختیارلتعلیل المختار میں ہے: ” الذي بين الميقات وبين الحرم “ یعنی حل سے مرادوہ جگہ ہے ،جو میقات اورحرم کے درمیان ہے۔(الاختيار لتعليل المختار،کتاب الحج، ج01،ص142،مطبعۃ الحلبی، القاھرۃ)

   فتح باب العنایۃ میں ہے: (وميقاته الحل) الذي بين الميقات والحرم، إلا أنه يجوز الإحرام من دويرة أهله، بل هو أفضل۔“ ترجمہ: ” میقات کے اندر رہنے والوں کے احرام کی جگہ حل یعنی میقات اور حرم کی درمیانی جگہ ہے مگر یہ کہ ان کا اپنے گھر سے احرام باندھنا جائز  بلکہ افضل ہے۔(فتح باب العناية بشرح النقاية،کتاب الحج، ج01، ص622، دار الأرقم، بیروت)

   تنویر الابصار مع الدر المختار  میں ہے:”(و حل لاھل داخلھا)یعنی لکل من وجد فی داخل المواقیت (دخول مکۃ غیر محرم)مالم یرد نسکا“یعنی داخلِ میقات شخص  یعنی ہر وہ شخص جو میقات کے اندر موجود ہو،اس شخص کے لئے بغیر احرام کے مکہ میں داخل ہونا جائز ہے بشرطیکہ اس کاحج یا عمرہ کرنے کا ارادہ نہ ہو۔

   (ما لم یرد نسکا) کے تحت رد المحتار میں ہے:”اما ان ارادہ وجب علیہ الاحرام قبل دخولہ ارض الحرم فمیقاتہ کل الحل الی الحرمفتح۔“یعنی اگر اس کا حج یا عمرے  کا ارادہ ہو، تو  زمینِ حرم میں داخل ہونے سےپہلے اس پر احرام واجب ہے، پس اس (حلی)کی میقات تمام حِل ہے حرم تک ہے"فتح القدیر"۔(ردالمحتار علی الدر المختار، کتاب الحج، مطلب فی المواقیت، ج03،ص554-553،مطبوعہ کوئٹہ)

   بہارِ شریعت میں ہے: ” جو لوگ میقات کے اندر کے رہنے والے ہیں مگر حرم سے باہر ہیں اُن کے احرام کی جگہ حل یعنی بیرون حرم ہے، حرم سے باہر جہاں چاہیں احرام باندھیں اور بہتر یہ کہ گھر سے احرام باندھیں اور یہ لوگ اگر حج یا عمرہ کا ارادہ نہ رکھتے ہوں تو بغیر احرام مکہ معظمہ جاسکتے ہیں ۔ “(بہارِ شریعت، ج01، ص 1068، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم