Jaddah Mein Rehne Wala Hajj Ke Mahine Mein Umrah Karle Tu Us Saal Hajj Karne Ka Hukum

جدہ کا رہائشی عمرہ کرلے تو وہ اسی سال حج کرسکتا ہے یا نہیں ؟

مجیب:محمد عرفان مدنی عطاری

فتوی نمبر: WAT-1688

تاریخ اجراء: 12ذوالقعدۃالحرام1444 ھ/01جون2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   میں جدہ کا رہائشی ہوں، میرا حج کا ارادہ تھا اور میں نے حج کےمہینوں میں عمرہ کر لیا ہے تو کیا اب میں  اس سال حج کر سکتا ہوں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   آپ جدہ کے رہنے والے ہیں  تواگرآپ کااس سال حج کاارادہ تھاتوآپ کے لیے حج کے مہینوں میں عمرہ کرنامنع تھا،بہرحال اب آپ نے عمرہ کرلیاہے، تواب آپ اس سال حج نہیں کرسکتے ،آئندہ سال حج کریں ،اگراس سال حج کیاتوگناہ بھی ہوگااوراس جرم کے کفارے میں دم دینابھی لازم ہوگا۔تفصیل اس میں یہ ہےکہ:

   جدہ میقات کے اندرہے اورجولوگ میقات کے اندررہتے ہوں (چاہے  مکہ میں رہتے ہوں یاکسی اورمقام پر)اگروہ اس سال حج کااردہ رکھتےہوں،  توان کے لیے  حج کے مہینوں (یکم شوال سے لے کر10ذوالحجہ تک)میں عمرہ کرنامنع ہوتاہےاوراگروہ حج کےمہینوں میں عمرہ کرلیں توپھر ان کواس سال حج کرنے کی اجازت نہیں ہوتی،اگراس سال حج کرلیں گےتوگناہ بھی ہوگااوراس جرم کے کفارےمیں دم بھی لازم ہوگا۔

   بحرالرائق میں ہے "فالحاصل أن المكي إذا أحرم بعمرة في أشهر الحج فإن كان من نيته الحج من عامه فإنه يكون آثما؛ لأنه عين التمتع المنهي عنه لهم فإن حج من عامه لزمه دم جناية لا دم شكر، وإن لم يكن من نيته الحج من عامه ولم يحج فإنه لا يكون آثما بالاعتمار في أشهر الحج؛ لأنهم وغيرهم سواء في رخصة الاعتمار في أشهر الحج، وما في البدائع من أن الاعتمار في أشهر الحج للمكي معصية محمول على ما إذا حج من عامه"ترجمہ:پس حاصل یہ ہے کہ مکی جب حج کے مہینوں میں عمرے کا احرام باندھے تو اگر اسی سال اس کی حج کرنے کی نیت بھی ہو تو وہ گنہگار ہوگا کیونکہ یہ  وہی عین تمتع ہے، جس  سے ان کو منع کیا گیا ہے،پھر اگر وہ اسی سال حج کر لیتا ہے تو اس پر جنایت کا دم لازم ہوگا ،دمِ شکر لازم نہیں ہوگا، اور اگر اس کی اسی سال حج کرنے کی نیت نہ ہو اور نہ وہ حج کرے ،تو حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کی وجہ سے وہ گنہگار نہیں ہوگا کیونکہ مکی اور غیرمکی ،دونوں کے لیے حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کی یکساں رخصت ہے اور وہ جو بدائع میں ہے کہ حج کے مہینوں میں مکی کا عمرہ کرنا گناہ ہے تو وہ اس صورت پر محمول ہے جب وہ اسی سال حج بھی کرے۔(بحر الرائق،کتاب الحج،باب التمتع، ج 2،ص 393،دار الكتاب الإسلامي)

   لباب و شرح لباب میں ہے” (ويكره فعلها في أشهر الحج لأهل مكة ومن بمعناهم) أي من المُقيمين ومَنْ في داخل الميقات لأن الغالب عليهم أن يحجوا في سنتهم فيكونوا متمتعين، وهم عن التمتع ممنوعون، وإلا فلا مَنْعَ للمكي عن العمرة المفردة في أشهر الحج إذا لم يحج في تلك السنة، ومَنْ خالف فعليه البيان وإتيان البرهان“ترجمہ:اہل مکہ اور جو ان کے معنی میں ہیں یعنی مکہ میں رہنے والے اور میقات کے اندر رہنے والے ،ان سب کے لئے حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا مکروہ ہے کیونکہ غالب یہی ہے کہ یہ  اسی سال حج بھی کریں گے، تو پھر وہ تمتع کرنے والے ہوجائیں گے حالانکہ تمتمع سے ان کو منع کیا گیا ہے ،وگرنہ تو مکی اگر  اسی سال حج نہ کرے   تو حج کے مہینوں میں صرف عمرہ کرنا اس کے لئے ممنوع نہیں اور جو اس کے خلاف کا مدعی ہو تو اس پر دلیل سے بیان کرنا لازم ہے۔(لباب و شرح لباب،باب العمرۃ،656،المکتبۃ الامدادیۃ،السعودیۃ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم