مجیب:مفتی ابومحمد علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:Gul-2727
تاریخ اجراء:14جمادی الاولی 1444ھ/09دسمبر2022ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے
ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے
میں کہ میرے دوست نے ایک مسئلہ بیان کیا کہ عمرہ میں نیت کرنے کے ساتھ ساتھ
ایک دفعہ تلبیہ یعنی”لبیک اللھم
لبیک الخ“ کہنا ضروری ہوتا
ہے، اگر کسی نے تلبیہ نہ کہا، تو ا س کا عمرہ شروع ہی
نہیں ہو گا۔پوچھنا یہ ہے کہ کیا واقعی یہ بات
درست ہے کہ بغیر تلبیہ کہےاحرام باندھا، تو عمرہ شروع نہیں
ہوگا؟شرعی رہنمائی فرماد یں۔
بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جی ہاں!یہ بات درست ہے کہ
احرام میں داخل ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ حج یا عمرہ
میں سے کسی ایک منسک (یعنی عبادت)کو ادا کرنے کی
نیت کرنے کے ساتھ ساتھ تلبیہ یعنی ”لبیک اللھم لبیک“
یا اس کے قائم مقام ذکر اللہ کرنا، ضروری ہےاور تلبیہ یا تلبیہ کے قائم مقام ذکر کرتے
وقت احرام کی نیت کا ہونا
بھی ضروری ہے، صرف ذکر اللہ کی نیت کرنے سےتلبیہ شمار نہیں ہوگا
۔اگر کسی شخص نے احرام کی نیت کرنے کے ساتھ تلبیہ
یعنی”لبیک
اللھم لبیک“ یا
کوئی ذکر اللہ احرام کی
نیت سے نہ کیا،بلکہ ذکر اللہ کی نیت کی، تو ایسا شخص مُحْرِم نہیں کہلائے
گا اور نہ ہی ایسے شخص کا
عمرہ ادا ہوگا،البتہ یہ یاد رکھیں کہ تلبیہ میں خاص
”لبیک اللھم
لبیک “ کہنا
سنت ہے۔
احرام کی شرائط میں سے
ایک شرط تلبیہ کہنا بھی
ہے،اس کے متعلق جزئیات درج ذیل ہیں۔
فتاوی
ہندیہ میں احرام کی
شرائط وغیرہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:’’ لبیک اللھم
لبیک لبیک لاشریک لک الخ۔ وھی مرۃ شرط
والزیادۃ سنۃ۔۔۔اماشرطہ فالنیۃ
حتی لایصیر محرما بالتلبیۃ بدون نیۃ
الاحرام ولا یصیر شارعا بمجرد النیۃ ما لم یات
بالتلبیۃ او ما یقوم مقامھا من الذکر“ترجمہ : لبیک اللھم
لبیک لبیک لاشریک لک( آخر تک
)ایک مرتبہ کہنا شرط اور ایک سے زیادہ مرتبہ کہناسنت ہے ۔۔۔بہرحال
احرام کی شرط،تو وہ نیت ہے،یہاں تک کہ احرام کی نیت
کے بغیر تلبیہ کہنے سے محرم نہ ہوگا۔ اسی طرح صرف احرام کی نیت
کرنے سے محرم نہیں ہوگا، جبکہ تک احرام کی نیت سے تلبیہ
یا اس کے قائم مقام ذکرنہ کرلے۔ (فتاوی ھندیہ،
جلد1،صفحہ 222،مطبوعہ کوئٹہ)
امام
اہل سنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ” رکن احرام کے صرف دو ہیں، دل سے
نیت اور اس کے ساتھ زبان سے وہ ذکر جس میں اللہ تعالیٰ
کی تعظیم ہو، خواہ لبیک یا کچھ اور مثل ”سبحان اللہ یا الحمدللہ
یا اللہ اکبر یا اللھم اغفرلی وغیرذلک“جب یہ دونوں
باتیں پائی گئیں ، احرام بندھ گیا اور جو کچھ مُحرم پر
حرام تھا ، حرام ہوگیا ۔ پَر لبیک کہنا سنت اور مُحرِم کے لیے ہر ذکر سے بہتر ہے
جہاں تک ہوسکے اس کی کثرت کرے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد10، صفحہ779، 780،
مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
”
لبیک کہنا سنت “اس عبارت پر فتاوی رضویہ کے حاشیہ میں ہے:”وقع فی اللباب ان
التلبیۃ مرۃ فرض وفی النھر والدر انھا مرۃ
شرط۔ قال القاری وھو عندالشروع لاغیر، لکن التحقیق ان الفرض
والشرط انما ھو مطلق الذکر لاخصوص التلبیۃ کما حققہ فی البحر
،قال: وقول من قال انھا شرط ،مرادہ ذکر یقصد بہ التعظیم لاخصوصھا
وتمامہ فی ردالمحتار۔ اقول: و قدنص فی اللباب قبیل ما
مران کل ذکر یقصد بہ تعظیم ﷲ سبحانہ یقوم مقام
التلبیۃ۔ وفیہ فی صدر باب الاحرام شرائط صحتہ
الاسلام والنیۃ والذکر اوتقلید البدنۃ ثم عد من سننہ
تعیین التلبیۃ۔ قال القاری رحمۃ اللہ
علیہ ھناک التلبیۃ اوما
یقوم مقامھا من فرائض الاحرام عند اصحابنا
وفی الدریصح الحج بمطلق النیۃ ولو بقلبہ لکن
بشرط مقارنتھا بذکر یقصد بہ التعظیم فانکشف الغطاء والحمدللہ رب
العٰلمین “ یعنی لباب میں مذکور ہے کہ تلبیہ ایک مرتبہ
فرض ہے اور نہر الفائق اور دُر میں ہے کہ ایک بار شرط ہے۔ ملا
علی قاری رحمہ اللہ نےفرمایا کہ یہ صرف شروع میں
ہے،لیکن تحقیق یہ ہے کہ فرض اور شرط تلبیہ نہیں،
بلکہ مطلقاً ذکر ہے، جیسا کہ بحر میں اس کی تحقیق
ہے۔ جن لوگوں نے تلبیہ کے شرط ہونے کا قول
اختیار کیا ،ان کی مراد یہ ہے کہ ایسا ذکر جس سے
تعظیم کا قصد کیا جائے، نہ کہ خاص تلبیہ۔ مکمل بحث
ردالمحتار میں ہے۔ اقول: لباب میں پچھلی عبارت سے
تھوڑا سا پہلے تصریح ہے کہ ہر وہ
ذکر جس سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی تعظیم کا قصد
کیا جائے وہ تلبیہ کے قائم
مقام ہوتا ہے ۔ اسی میں باب الاحرام کے شروع میں ہے کہ
احرام کے صحیح ہونے کی شرط اسلام، نیت، ذکر یا بُدنہ کی تقلید ہے ۔ پھر اس
کی سنتوں میں تلبیہ کو ذکر کیا، ملا علی قاری
رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ: ہمارے اصحاب کے نزدیک یہاں تلبیہ یا اس کے قائم
مقام کوئی ذکر، احرام کے فرائض
میں سے ہے۔دُر میں
ہے کہ حج، مطلق نیت سے صحیح ہوجاتا ہے خواہ صرف دل سے نیت ہو،
بشر طیکہ نیت کے ساتھ کوئی ایسا ذکر ہو جس سے تعظیم
مقصود ہو۔تو اس سے پردہ ہٹ گیا اورتمام تعریفیں اس
اللہ کے لیے ہیں جو عالمین کا رب ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد10، صفحہ779تا781، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
احرام
کی شرائط کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے، صدر الشریعہ، بدر الطریقہ
مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں:” تنہا نیت
بھی کافی نہیں جب تک لبیک یا اس کے قائم مقام
کوئی اور چیز نہ ہو۔“(بھار
شریعت، جلد1، حصہ6، صفحہ 1074، مکتبۃ المدینہ،کراچی)
تلبیہ یا تلبیہ کے قائم مقام ذکر
کرنے کے وقت احرام کی نیت کا
ہونا ضروری ہے، اس کے متعلق جزئیات درج ذیل ہیں:
تلبیہ
کے وقت احرام کی نیت کا ہونا ضروری ہے ، جیسا کہ البحر
العمیق، فتاوی تاتار خانیہ، محیط برھانی میں
ہے:” واللفظ للمحیط:واعلم بان الروايات قد اختلفت فی هذا الفصل،
فی رواية ابن سماعة بمجرد النية لا يصير محرماً الا ان يلبی او يكبر
او يذكر اللہ، يريد به الاحرام “ترجمہ:تو
جان کہ اس مسئلے میں روایات
مختلف ہیں۔ابن سماعہ کی روایت میں ہے کہ محض
نیت سے محرم نہیں ہوگا،
مگریہ کہ نیت کے ساتھ
تلبیہ، تکبیر یا کوئی اور اللہ پاک کا ذکر کرےا
ور اس ذکر سے احرام کا ارادہ ہو۔
(محیط ِ برھانی، جلد2، صفحہ 420، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،
بیروت)
النتف
فی الفتاوی میں ہے :” فاما الاحرام فهو التلبية مع وجود النية وهو على ثلاثة اوجه:احدها اذا نوى
ولم يلب فليس بمحرم بالنية وحدهاوالثانی ان لبى ولم ينو فليس بمحرم ايضا
فی قول ابی حنيفة واصحابه وهو محرم فی قول ابی عبد اللہ
على نيته القديمةوالثالث ان لبى ونوى فهو محرم متفقا “ترجمہ:بہر حال احرام
یہ تلبیہ اور نیت کے موجود ہونے کے ساتھ تین
صورتوں پر مشتمل ہے۔پہلی صورت
یہ ہےکہ جب کسی شخص نے احرام کی نیت کی، لیکن
تلبیہ نہیں کہا، تو وہ شخص فقط نیت سے محرم نہیں
ہوگا۔دوسری صورت یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے تلبیہ
کہا، لیکن احرام کی نیت نہیں کی، تو ایسا شخص
بھی امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے اصحاب
علیہم الرحمۃ کے نزدیک محرم نہیں ہوگا، البتہ ابو عبد
اللہ کے قول کے مطابق سابقہ نیت کے
اعتبار سے محرم ہوگا۔تیسری صورت یہ ہے کہ اگر
کسی شخص نے تلبیہ کہا اور ساتھ میں احرام کی نیت
بھی کی ، تو ایسا شخص
بالاتفاق محرم ہوگا۔(النتف فی الفتاوی،
صفحہ 207، مطبوعہ دار الفرقان )
احرام
کے وقت تلبیہ کہنے کی حیثیت کے متعلق جو بحث فرمائی،اس
بحث کے دوران معتمد قول کو بیان کرتے ہوئےملا علی قاری لکھتے
ہیں:”فالمعتمد ما ذکرہ حسام الدین الشھید انہ
یصیر شارعا بالنیۃ لکن عند التلبیۃ لا
بالتلبیۃ کما یصیر شارعا فی الصلاۃ
بالنیۃ لکن عند التکبیر لا بالتکبیر“ترجمہ:معتمد
قول وہ ہے جس کو حسام الدین شہید رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر
کیا کہ احرام شروع تو نیت سے
ہوگا،مگرتلبیہ کے وقت ہوگا، فقط تلبیہ کے ساتھ محرم نہیں ہوگا،
جیسا کہ نماز میں داخل تو نیت سے ہوگا مگر تکبیر کے وقت
ہوگاصرف تکبیرسے نماز میں داخل نہیں ہوگا۔(ارشاد
الساری الی مناسک ملا علی قاری، صفحہ 125، 126، مطبوعہ
مکۃ المکرمہ)
صدر
الشریعہ، بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی
رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”احرام کے لیے ایک مرتبہ
زبان سے لبیک کہنا ضروری ہے اور اگر اس کی جگہ”سُبْحٰنَ اللہِ، یا اَلْحَمْدُ
لِلّٰہِ ، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ“یا کوئی اور ذکرِ
الٰہی کیا اور احرام کی نیت کی ،تو احرام
ہوگیا ،مگر سنت لبیک کہنا ہے۔“(بھار
شریعت، جلد1، حصہ6، صفحہ 1074، مکتبۃ المدینہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیا 65 سال کی بیوہ بھی بغیر محرم کے عمرے پر نہیں جاسکتی؟
کسی غریب محتاج کی مددکرناافضل ہے یانفلی حج کرنا؟
کمیٹی کی رقم سے حج وعمرہ کرسکتے ہیں یانہیں؟
عورت کا بغیر محرم کے عمرے پر جانے کا حکم؟
ہمیں عمرے پر نمازیں قصرپڑھنی ہیں یا مکمل؟
جومسجد نبوی میں چالیس نمازیں نہ پڑھ سکا ،اسکا حج مکمل ہوا یانہیں؟
جس پر حج فرض ہو وہ معذور ہو جائے تو کیا اسے حج بدل کروانا ضروری ہے؟
کیا بطور دم دیا جانے والا جانور زندہ ہی شرعی فقیر کو دے سکتے ہیں؟