فتوی نمبر: FAM-590
تاریخ اجراء: 13جمادی الاولی6144ھ/09نومبر 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا احرام کی حالت میں فرض غسل کے علاوہ نفل غسل بھی کرسکتے ہیں یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
احرام کی حالت میں فرض غسل کے علاوہ نفل غسل ، یا ویسے ہی گرمی دور کرنے اور ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے غسل کرنے کی شرعاً اجازت ہے۔اس کے جواز کی اولاً دلیل یہ ہے کہ اس کی ممانعت نہیں۔ثانیاً: حدیث پاک میں آتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما احرام کی حالت میں مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے پہلے مقام ِ ذی طو ی پر غسل کرتےاور فرماتے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ثالثاً:حاجی کے لیےچند مواقع پر غسل کرنامسنون و مستحب ہے ،جیسا کہ حاجی کے لیے میدان عرفات میں زوال کے بعد وقوف عرفہ کے لیے غسل کرنا سنت مؤکدہ ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ غسل واجب تو نہیں ہے، بلکہ نفل ہے اور یہ احرام کی حالت میں ہی ہوگا،لہذا احرام کی حالت میں نفل غسل بھی کرسکتے ہیں،اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔
احرام کی حالت میں غسل کرنا،جائز ہے،چنانچہ مبسوط سرخسی میں ہے:’’ولا بأس للمحرم أن يغتسل فإن عمر رضی اللہ عنه اغتسل، وهو محرم‘‘ترجمہ:اور مُحرِم کے لیے غسل کرنے میں کوئی حرج نہیں ،کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے محرم ہونے کی حالت میں غسل کیا۔ (مبسوط سرخسی،جلد4،صفحہ101،دار المعرفہ، بیروت)
تبیین الحقائق میں ہے:’’لا يتقي الاغتسال ودخول الحمام؛ لأنه عليه الصلاة والسلام «اغتسل، وهو محرم» رواه مسلم وحكى أبوأيوب الأنصاری اغتسال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم متفق عليه وكان عمر يغتسل، وهو محرم‘‘ترجمہ:محرم غسل کرنے اور حمام میں داخل ہونے سے نہیں بچے گا،کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کیااس حالت میں کہ آپ مُحرم تھے،اس کو امام مسلم نے روایت کیا اور ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے(محرم ہونے کی حالت میں) غسل کرنے کو بیان کیا جو کہ متفق علیہ ہے(یعنی امام بخاری اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہما نے اس کو روایت کیا ہے) اور حضرت عمر رضی اللہ عنہغسل کرتے تھے اس حالت میں کہ آپ محرم ہوتے۔(تبیین الحقائق،جلد2،باب الاحرام ،صفحہ13، مطبوعہ قاھرہ)
مکہ مکرمہ میں داخلے کے لیے غسل کرنے سے متعلق صحیح بخاری شریف کی حدیث پاک میں ہے:’’عن نافع، قال: كان ابن عمر رضي اللہ عنهما «إذا دخل أدنى الحرم أمسك عن التلبية، ثم يبيت بذی طوى، ثم يصلي به الصبح، ويغتسل»، ويحدث أن نبي اللہ صلى اللہ عليه وسلم كان يفعل ذلك‘‘ترجمہ:حضرت نافع سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما جب حرم کے قریب پہنچ جاتے، توتلبیہ سے رک جاتے ،پھر مقام ذی طوی پر رات گزارتے اور ،پھر صبح وہاں نماز پڑھتے اور غسل کرتے اور فرماتے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا کیا کرتے تھے۔(صحیح البخاری،جلد2،صفحہ144،رقم الحدیث:1573،دار طوق النجاۃ)
مکہ مکرمہ میں داخلے کے لیے غسل کرنا ،مُحرم اور غیر مُحرم سب کے لیےمستحب ہے،چنانچہ اس حدیث کے تحت عمدۃ القاری میں ہے:’’وقال ابن المنذر: الاغتسال لدخول مكة مستحب عند جميع العلماء، إلا أنه ليس في تركه عامدا عندهم فدية۔۔۔ والغسل لدخول مكة ليس لكونها محرما، وإنما هو لحرمة مكة حتى يستحب لمن كان حلالا أيضا ‘‘ترجمہ:ابن منذر نے فرمایا کہ مکہ میں داخل ہوتے وقت تمام علماء کے نزدیک غسل مستحب ہے ،مگر یہ کہ جان بوجھ کر اس کے ترک میں کوئی فدیہ لازم نہیں۔۔۔اور مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کے لیےغسل کرنا ،محرم ہونے کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ یہ مکہ مکرمہ کی حرمت کے پیش نظر ہے، یہاں تک کہ یہ غیر محرم کے لیے بھی مستحب ہے۔ (عمدۃ القاری،جلد9،صفحہ208،207،دارإحياء التراث العربي،بيروت)
’’شرح النووی للمسلم ‘‘میں ہے:’’واتفق العلماء على جواز غسل المحرم رأسه وجسده من الجنابة بل هو واجب عليه وأما غسله تبردا فمذهبنا ومذهب الجمهور جوازه بلا كراهة‘‘ترجمہ:اور علماء کا محرم کے جنابت سے اپنے سر اور جسم کو دھونے پر اتفاق ہے،بلکہ اس پر (غیر حاجی کی طرح جنابت سے غسل ) واجب ہے،اور بہرحال ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے غسل کرنا، تو ہمارا اور جمہور کا مذہب یہ ہے کہ یہ بلاکراہت جائز ہے۔ (شرح النووی للمسلم،جلد8،صفحہ126، دار إحياء التراث العربي، بيروت)
حاجیوں کے وقوف عرفہ کے لیے غسل کرنے کے متعلق تنویر الابصار مع درمختار میں ہے:’’وسن۔۔۔(لاجل احرام و)فی جبل (عرفۃ) بعد الزوال‘‘ترجمہ:اوراحرام کے لیے اور میدان عرفات میں زوال کے بعد غسل سنت ہے۔(تنویر الابصار مع درمختار،جلد1،صفحہ341،340،دار المعرفہ،بیروت)
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ بہار شریعت میں ارشاد فرماتے ہیں:’’ جب دوپہر قریب آئے نہاؤ کہ سنت مؤکدہ ہے اور نہ ہوسکے تو صرف وضو(کرلو)۔“(بھار شریعت ،جلد1،حصہ 6،صفحہ 1123، مکتبۃ المدینہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیا 65 سال کی بیوہ بھی بغیر محرم کے عمرے پر نہیں جاسکتی؟
کسی غریب محتاج کی مددکرناافضل ہے یانفلی حج کرنا؟
کمیٹی کی رقم سے حج وعمرہ کرسکتے ہیں یانہیں؟
عورت کا بغیر محرم کے عمرے پر جانے کا حکم؟
ہمیں عمرے پر نمازیں قصرپڑھنی ہیں یا مکمل؟
جومسجد نبوی میں چالیس نمازیں نہ پڑھ سکا ،اسکا حج مکمل ہوا یانہیں؟
جس پر حج فرض ہو وہ معذور ہو جائے تو کیا اسے حج بدل کروانا ضروری ہے؟
کیا بطور دم دیا جانے والا جانور زندہ ہی شرعی فقیر کو دے سکتے ہیں؟