Hajj Ki Adaigi Me Takheer Karne Ka Hukum Aur Hajj e Badal Karwane Ki Ijazat Kis Ko Hai?

حج کی ادائیگی میں تاخیر کرنے کا حکم نیز حجِ بدل کرانے کی  اجازت کس کو  ہے؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Sar-7762

تاریخ اجراء:21رجب المرجب 1443ھ/23 فروری2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ میرے والد صاحب کے پاس اتنی رقم  تقریباً چار پانچ سال سے موجود ہے کہ جس سے وہ حج کر سکیں اور اُن پر حج فرض تھا،  مگر ابھی تک انہوں نے حج نہیں کیا اور اب اُن کی  عمر تقریباً  70 سال ہے اور شوگر، بلڈ پریشر اور ٹانگوں کے درد کی وجہ سے زیادہ پیدل نہیں چل سکتے، البتہ تھوڑی دیر چل سکتے ہیں اور خود سے سواری وغیرہ پر بھی بیٹھ سکتے ہیں، تو کیا وہ اپنی طرف سے حجِ بدل کروا سکتے ہیں یا ان پر خود حج  کرنا ضروری ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جان بوجھ کر بغیر کسی شرعی  عُذر کے فرض حج کو ایک سال تك مؤخر کرنا گناہِ صغیرہ اور چند سال تک تاخیر کرنا گناہِ کبیرہ ہے، لہٰذا   اِس تاخیر پر توبہ کی جائے ۔  جب حج ادا کرنے پر قدرت ہو اور دیگر تمام شرائط موجود ہوں ،تو فوراً یعنی اُسی سال حج کی ادائیگی فرض   ہے، نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:فرض حج ادا کرنے میں جلدی کیا کرو،کیونکہ تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ بعد میں اُسے کیا دشواری لاحق ہو جائے۔

   اور جہاں تک سوال میں بیان کی گئی صورت کا تعلق ہے ،تو آپ کے والد صاحب حجِ بدل نہیں کروا سکتے، بلکہ اُن پر فرض ہےکہ اپنا حج خود ادا کریں، کیونکہ فقہائے کرام نے  حجِ بدل کروانے کی اجازت ایسے شخص کو دی ہے ،جو عاجز ہو اور(عجز کے ممکن الزوال ہونے کی صورت میں) اُس کا عِجْز (عاجز ہونا)موت تک باقی رہے ، یعنی وفات تک وہ شخص حج کرنے پر قادر ہی نہ ہو  ، اس کی ایک صورت یہ ہے کہ شدید بڑھاپے یا شدتِ مرض کی وجہ سے حالت ایسی ہو چکی ہو کہ خود حج کرنے پر بالکل قدرت  ہی نہ رکھتا ہو ، جبکہ آپ کے والد صاحب کےلیےحج کرنےمیں مشقَّتْ ضرورہے،لیکن وہ عاجز نہیں ،کیونکہ فی زمانہ  حج کا سفرقدرے آسان ہے، حَرَمین شریفین میں  طواف، سَعْی اور دیگر مناسکِ حج کی ادائیگی کے لیے ویل چیئرز(Wheel chairs) اور دیگر سہولیات میسر ہیں، یونہی مکہ   مکرمہ سے مدینہ  منوّرہ آنے جانے کے لیے بھی بہترین سفری سہولیات موجود ہیں، لہٰذا اتنی سہولیات اور آسانیاں موجود ہوتے ہوئے آپ کے والد صاحب حج کی ادائیگی سے عاجز نہیں  ہیں ، اُن پر فرض ہے کہ اپنا حج خود ادا کریں۔

   فرضیتِ حج کے بعد اُسی سال حج کرنا ضروری ہونےکےبارےمیں حدیثِ مبارک میں ہے:قال رسول اللہ  صلى اللہ عليه وسلم: من أراد الحج،فليتعجّلترجمہ: رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےارشادفرمایا:جو حج کاارادہ رکھتاہو،اسےچاہیےکہ اس (کواداکرنے)میں جلدی کرے۔(سنن ابوداؤد،کتاب المناسک ،جلد1،صفحہ254،مطبوعہ لاھور )

   اس حدیثِ مبارک کی شرح میں علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1014ھ/1605ء) لکھتے ہیں:والأصح عندنا أن الحج واجب على الفور ترجمہ: اور ہمارےنزدیک اصح یہی ہےکہ حج فوری طور پراداکرناواجب ہے۔(مرقاۃ المفاتیح ،کتاب المناسک،الفصل الثانی  ، جلد5،صفحہ436،مطبوعہ کوئٹہ )

   اور مسند احمد بن حنبل میں ہے : عن ابن عباس قال: قال رسول اللہ  صلى اللہ عليه وسلم تعجَّلوا إلى الحج  يعني الفريضة فان  أحدكم لا يدري ما يعرض له ترجمہ:حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا  بیان کرتے ہیں کہ رسول پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا:  فرض حج ادا کرنے میں جلدی کیا کرو،کیونکہ تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ بعد میں اُسے کیا دشواری لاحق ہو جائے۔ (مسندِ احمد، مسند عبد اللہ بن عباس ، جلد5، صفحہ58، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ)

   اِس روایت کونقل کرنے کے بعد علامہ عبدالرؤف مناوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  (سالِ وفات:1031ھ) لکھتے ہیں:ذهب أبو حنيفة إلى وجوب فوريته تمسّكا بظاهر هذا الخبر ولأنه لو مات قبله مات عاصياترجمہ:امام اعظم  ابو حنیفہ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  اِس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے فوراً حج کی ادائیگی کو لازم قرار دیتے ہیں، لہٰذا اگر حج  کرنے سے پہلے مر گیا، تو  گنہگار ٹھہرے گا۔(فیض القدیر، جلد3، صفحہ 250، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت)

   صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:جب حج کے لیے  جانے پر قادر ہو حج فوراً فرض ہوگیا یعنی اُسی سال میں اور اب تاخیر گناہ ہے اور چند سال تک نہ کیا تو فاسق ہے اور اس کی گواہی مردود مگر جب کرے گا،  ادا ہی ہے، قضا نہیں۔‘‘(بھارِ شریعت، جلد1، حصہ 6، صفحہ1036، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

   حج فرض ہونے کے باوجود تاخیر کی صورت میں گنہگار ہونے کے بارے میں علامہ  علاؤالدین حَصْکَفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1088ھ/1677ء) لکھتےہیں:فیفسق وترد شھادتہ بتاخیرہ ای سنینا لان تاخیرہ صغیرۃ وبارتکابہ مرۃ  لایفسق الا باصرارترجمہ: چند سال تک حج کو بلا وجہ مؤخر کرنے والے کو فاسق قرار دیتے ہوئے اُس کی شہادت یعنی گواہی کو رد کر دیا جائے گا، کیونکہ حج کو مؤخر کرنا گناہِ صغیرہ ہے اور تَفْسِیق(فاسق قرار دینا) صرف ایک دفعہ تاخیر کرنے سے نہیں ، بلکہ  اِصْرَار یعنی چند سال مؤخر کرتے رہنے پر کی جائے گی۔ (الدرالمختار مع ردالمحتار، کتاب الحج، جلد3، صفحہ520، مطبوعہ کوئٹہ )

   سیّدی  اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:ا گر ایک سال بھی ایسا گزرگیا تھا کہ جاسکتا تھا اور نہ گیا  ، تو گنہگار ہوا، استغفار واجب ہے۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ، جلد10، صفحہ709، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

   حجِ بدل اُسی شخص  کی طرف سے ہو  سکتاہے، جو  خود ادا کرنے سے عاجز ہو ، چنانچہ  عِجْز کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1014ھ/1605ء) لکھتے ہیں:ان کل من وجب علیہ الحج  وعجز عن الاداء یجب علیہ الاحجاج …ویتحقق العجز بالموت والحبس والمنع والمرض الذی لا یرجیٰ زوالہ ای کالزمن والفالج وذھاب البصر ای بان صار اعمیٰ والعرج والھرم ای الکبر ای الذی لا یقدر  علی الاستمساک معہ وعدم المحرم وعدم امن الطریق وکل ذلک اذا استمر  الی الموتترجمہ: ہر وہ شخص جس پر حج فرض ہو اور وہ اس کی ادائیگی سے عاجز ہو ، تو اس پر حجِ بدل کروانا واجب ہے  اور  اُس شخص کا عاجز ہونا ان صورتوں میں ثابت ہو گا ،  مرنے،قید ہوجانے ، روک دئیے جانے اور ایسے مرض میں مبتلا ہونے  کہ جس کے ختم ہونے  کی امید نہ ہو ، جیسے اپاہج ہونا، فالج ہو جانا، بینائی چلی جانا ، لنگڑا ہونا  یا اِس قدر زیادہ بڑھاپا  آ جانا کہ وہ شخص ضعفِ عمری کے سبب خود بلا سہارا کھڑے ہونے پر بھی قادر  نہ رہے یا( عورت کے لیے )محرم  کے نہ ہونے یا راستہ پُرامن نہ ہونے کی  صورت میں ، (اِن سب کے ساتھ  یہ  بھی شرط) کہ یہ تمام اعذار موت تک باقی رہیں۔(المسلک المتقسط مع حاشیۃ ارشاد الساری، صفحہ611، مطبوعہ  مکۃ المکرمہ  )

   حج ِ بدل کی شرائط بیان کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:خود ادا سے عاجز ہو …عجز اگر ممکنُ الزوال تھا  ، مثل حبس ومرض، تو شرط ہے کہ تادمِ مرگ دائم رہے، اگر بعدِ حج خود قادر ہوا ،خود ادا فرض ہوگی، بخلاف اس عجز کے کہ قابلِ زوال نہیں، جیسے نابینائی اگر بطور خرقِ عادت بعد اِحجاج زائل بھی ہوجائےاعادہ ضرور نہیں۔(فتاویٰ رضویہ، جلد10، صفحہ659، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم