مجیب:مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری
فتوی نمبر: JTL-1787
تاریخ اجراء: 08 ذی الحجۃ الحرام 1445ھ/ 15 جون 2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلےکے بارے میں کہ حجِ بدل کرنے والا(جبکہ وہ کروانے والے کی اجازت سے حجِ تمتع کی صورت میں کر رہا ہو، تو وہ) حج کی قربانی اپنے نام پر کرےگایا جس کے نام پر حج بدل کرنے گیا ہے، اس کے نام پر کرے گا ؟ برائے مہربانی جواب ارشاد فرما دیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جو شخص حجِ بدل کروانے والے کی اجاز ت سےتمتع کی صورت میں حج بدل کر رہا ہو، تو اس صورت میں وہ حجِ تمتع کی قربانی اپنے مال سے اپنے نام پر کرےگا، حج بدل کروانے والے کی طرف سے نہیں کرے گا، کیونکہ حجِ تمتع اور حجِ قران میں حاجی پر شکرانے کے طور پر جو قربانی لازم ہوتی ہے،تو وہ حج و عمرہ دونوں کو جمع کرنے کی و جہ سے لازم ہوتی ہے اور حج و عمرہ کو حقیقی لحاظ سے جمع کرنے والا یہی حاجی ہوتا ہے ، تو حج کا وقوع اگرچہ شرعی لحاظ سے حج بدل کروانے والے کی طرف سے ہوتا ہے،مگر قربانی کا وجوب حقیقی لحاظ کے اعتبار سے ہے، اس لیے یہ حاجی پر اسی کے مال سے لازم ہوتی ہے۔اس میں اصول یہ ہے کہ دمِ احصار کےعلاوہ جوقربانی بھی حج کی وجہ سے لازم ہو گی ، وہ حج بدل کروانے والے پر نہیں ہو گی، بلکہ حج بدل کرنے والے پر ہو گی۔
چنانچہ اس کے متعلق فقیہ النفس امام قاضی خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں:’’الحاج عن الميت إذا كان مأمورا بالقران كان دم القران على الحاج لا فی مال الميت والأصل فيه أن كل دم يجب على المأمور بالحج يكون على الحاج لا فی مال الميت إلا دم الإحصار فی قول أبی حنيفة رحمه اللہ تعالى‘‘ترجمہ:میت کی طرف سے حج کرنے والا اگر قِران کر رہا ہو، تو قِران کی قربانی حاجی پر ہو گی ، نہ کہ میت کے مال سے ۔اس میں اصل یہ ہے کہ ہر وہ دَم جو مامور پر حج کی وجہ سے واجب ہو، تو وہ حاجی پر ہوتا ہے ، نہ کہ میت کے مال سے، سوائے محصر پر آنے والے دم کے ، یہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا قول ہے۔ (فتاوى قاضی خان، جلد01، صفحہ 153، مطبوعہ دار الکتب االعلمیہ، بیروت)
الدر المختار میں ہے:’’(ودم القران) والتمتع (والجناية على الحاج) إن أذن له الآمر بالقران والتمتع‘‘ ترجمہ: قِران و تمتع اور جنایت کا دم(قربانی) حاجی پر ہوگا ،جبکہ قِران و تمتع حجِ بدل کروانے والے کی اجازت سے ہو۔
اس کے تحت رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:’’(قوله على الحاج) أی المأمور. أما الأول فلأنه وجب شكرا على الجمع بين النسكين وحقيقة الفعل منه وإن كان الحج يقع عن الآمر لأنه وقوع شرعی لا حقيقی.۔۔أفاده فی البحر‘‘ ترجمہ: ماتن کاقول: حاجی پر ہو گا یعنی جسے حجِ بدل کا حکم دیا گیا ہے ،اس پر ہو گا، پہلا تو اس وجہ سے کیونکہ یہ دم دو عبادتوں یعنی حج و عمرہ کو جمع کرنے کے شکرانے کے طو ر پر واجب ہوا ہے اور حقیقی لحاظ سے یہ اسی نے ادا کیے، اگرچہ حج آمر یعنی حج بدل کروانے والے کی طرف سے ہو رہا ہے ،کیونکہ وہ وقوعِ شرعی ہے، نہ کہ حقیقی۔ اسے بحر میں بیان کیا گیا۔(رد المحتار علی الدر المختار، جلد 02، صفحہ 611، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)
جد الممتار میں ملا علی قاری علیہ الرحمۃکے حوالے سے ہے:’’وقد أقره عليه القارئ ثمه قائلا: (أی: وأذنا له فی التمتع "جاز"، لكن دم المتعة عليه فی ماله) اه‘‘ ترجمہ : اور ملا علی قاری علیہ الرحمۃ نے وہاں یہ کہتے ہوئے اس(تمتع) کو برقرار رکھا ہے کہ :(اور ان دونوں نے اسے تمتع کی اجازت دیدی ہو، تو یہ جائز ہے ،لیکن تمتع کی قربانی اس(حاجی)پر اسی کے مال سے ہو گی۔(جد الممتار ، جلد 05، صفحہ 306، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
بہار شریعت میں ہے:’’مرض یا دشمن کی وجہ سے حج نہ کرسکا یا اور کسی طرح پر مُحصر ہوا، تو اس کی وجہ سے جو دَم لازم آیا، وہ اُس کے ذمہ ہے ،جس کی طرف سے گیااور باقی ہرقسم کے دَم اِس کے ذمہ ہیں۔ مثلاً:سلا ہو ا کپڑا پہنا یا خوشبو لگائی یا بغیر احرام میقات سے آگے بڑھا یا شکار کیا یا بھیجنے والے کی اجازت سے قِران و تمتع کیا۔‘‘ (بھار شریعت، جلد 01، صفحہ 1206، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیا 65 سال کی بیوہ بھی بغیر محرم کے عمرے پر نہیں جاسکتی؟
کسی غریب محتاج کی مددکرناافضل ہے یانفلی حج کرنا؟
کمیٹی کی رقم سے حج وعمرہ کرسکتے ہیں یانہیں؟
عورت کا بغیر محرم کے عمرے پر جانے کا حکم؟
ہمیں عمرے پر نمازیں قصرپڑھنی ہیں یا مکمل؟
جومسجد نبوی میں چالیس نمازیں نہ پڑھ سکا ،اسکا حج مکمل ہوا یانہیں؟
جس پر حج فرض ہو وہ معذور ہو جائے تو کیا اسے حج بدل کروانا ضروری ہے؟
کیا بطور دم دیا جانے والا جانور زندہ ہی شرعی فقیر کو دے سکتے ہیں؟