Haiza Aurat Ka Masjid e Ayesha Se Baghair Ihram Ke Haram Mein Dakhil Hona Kaisa?

حائضہ عورت کا مسجد عائشہ سے بغیر احرام کے حرم میں داخل ہونا کیسا؟

مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری

فتوی نمبر:Nor-12741

تاریخ اجراء:08شعبان المعظم1444ھ/01مارچ2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہندہ حالتِ حیض میں حرمِ مکہ سے  مسجد عائشہ تک گئی پھر احرام کی نیت کے بغیر ہی دوبارہ حرم میں واپس آگئی کیونکہ اس کا عمرہ کرنے کا ارادہ نہ تھا۔ تو کیا اس صورت میں ہندہ پر کوئی کفارہ لازم ہوگا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی نہیں! پوچھی گئی صورت میں ہندہ پر کوئی کفارہ لازم نہیں ہوگا، کیونکہ مسجد عائشہ حل میں ہے اور حل سے حرم آتے وقت  اگر کسی شخص کا  عمرہ  یا حج کا ارادہ نہ ہو تو   وہ بلا احرام بھی حدودِ حرم میں داخل ہوسکتا ہے ، اس صورت میں اس پر عمرہ یا حج کرنا لازم نہیں ہوگا۔

   چنانچہ تنویر الابصار مع الدر المختار  میں ہے:”(حل لاھل داخلھا)یعنی لکل من وجد فی داخل المواقیت(دخول مکۃ غیر محرم)مالم یرد نسکا“ترجمہ: ”داخلِ میقات شخص  یعنی ہر وہ شخص جو میقات کے اندر موجود ہو،اس شخص کے لئے بغیر احرام کے مکہ میں داخل ہونا،  جائز ہے بشرطیکہ اس کاحج یا عمرہ کرنے کا ارادہ نہ ہو۔“

    (ما لم یرد نسکا) کے تحت رد المحتار میں ہے:”اما ان ارادہ وجب علیہ الاحرام قبل دخولہ ارض الحرم فمیقاتہ کل الحل الی الحرم“یعنی بہر حال اگر اس کا حج یا عمرہ کا ارادہ ہو، تو اب زمینِ حرم میں داخل ہونے سےپہلے اس پر احرام واجب ہے، پس اس کی میقات تمام حِل ہے حرم تک۔ (ردالمحتار علی الدر المختار، کتاب الحج، مطلب فی المواقیت، ج03،ص554-553،مطبوعہ کوئٹہ)

   بہارِ شریعت میں ہے:”مکہ والے اگر کسی کام سے بیرونِ حرم جائیں ،تو انہیں واپسی کے لئے احرام کی حاجت نہیں اور میقات سے باہر جائیں ، تو اب بغیر احرام واپس آنا انہیں جائز نہیں۔ “(بہارشریعت،ج01،ص1069-1068،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم