GP fund Wali Raqam Ki Waja Se Hajj Farz Hoga Ya Nahi?

جی پی فنڈ والی رقم کی وجہ سے حج فرض ہوگا یا نہیں؟

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Aqs 1305

تاریخ اجراء:23رجب المرجب1439ھ/10اپریل2018ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص کو کمپنی کی طرف سے جی پی فنڈ کی مد میں رقم ملی ہے ، جو اُس کی تنخواہ سے ہی کاٹی گئی تھی اور وہ حج کے اخراجات کے برابر ہے ، تو کیا اس شخص پر حج فرض ہوگا ؟ اصل رقم حج کے اخراجات کے برابر ہو ، تو کیا حکم ہے اور سود والی رقم کے ساتھ مل کر حج کے اخراجات کے برابر ہو ، تو کیا حکم ہے ؟ نیز اگر سود والی رقم کے ساتھ حج کر لیا ، تو فرض ادا ہوگیا یا دوبارہ کرنا پڑے گا ؟

سائل:خرم عطاری (ٹیکسلا ، راولپنڈی )

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    پوچھی گئی صورت میں اس شخص کو جی پی فنڈ میں ملنے والی اصل رقم ( جو اس کی تنخواہ سے ہی کاٹی گئی تھی ،وہ رقم ) بذات ِخود یا دیگر مال کے ساتھ مل کر  حج کے اخراجات کے برابر ہو ، تو دیگر شرائط کے پائے جانے کے ساتھ اس شخص پر حج فرض ہوگا ، کیونکہ وہ رقم اس شخص کی اپنی ملک ہے اور حج کے اخراجات کے برابر بندے کی ملکیت میں مال ہونے سے دیگر شرائط  پائے جانے سے حج فرض ہوتا ہے۔

    اور اگر اس شخص کو جی پی فنڈ میں ملنے والی اصل رقم وغیرہ حج کے اخراجات کے برابر نہ ہو ، لیکن زائد ملنے والی سود کی رقم کے ساتھ مل کر حج کے اخراجات کے برابر ہو ، تو اس سے حج فرض نہیں ہوگا ، کیونکہ مالِ حرام سے حج کرنا حرام ہے ، البتہ اگر اس سے حج کر لیا ، تو فرض ادا ہوجائے گا ، لیکن وہ حج مقبول نہیں ہوگا ، نہ ہی ثواب ملے گا ، کیونکہ اللہ عز و جل پاکیزہ چیز ہی قبول فرماتا ہے ۔

    جامع ترمذی میں حدیث شریف ہے:” لا یقبل اللہ الا الطیب “ ترجمہ:اللہ عز وجل صرف پاکیزہ چیز ہی قبول فرماتا ہے ۔

( جامع الترمذی ، ابواب الزکوٰۃ ، باب ماجاء فی فضل الصدقۃ ، جلد 1 ، صفحہ 260 ، مطبوعہ لاھور )

    الترغیب و الترہیب میں حرام مال کے ساتھ حج کرنے کے متعلق سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث شریف مروی ہے : ” قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم :”اذا خرج بالنفقۃ الخبیثۃ فوضع رجلہ فی الغرز فنادیٰ : لبیک ، ناداہ منادٍ من السماء لا لبیک و لا سعدیک زادُک حرام و نفقتک حرام و حجک مأزور غیر مبرور “ ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :بندہ جب حرام مال کے ساتھ حج کرنے کے لیے نکلتا ہے اور رکاب میں پاؤں رکھتا ہے ، تو پکارتا ہے:” لبیک ( یعنی یا اللہ عز وجل میں حاضر ہوں )“ تو آسمان سے ندا آتی ہے:”لا لبیک و لا سعدیک ( یعنی نہ تیری حاضری قبول ہے نہ تیری خدمت ۔ ) “ تیرا زادِ راہ اور تیرا نفقہ حرام ہے اور تیرا حج لوٹایا ہوا اور نامقبول ہے ۔

( الترغیب و الترھیب ،الترغیب فی النفقۃ فی الحج و العمرۃ ، جلد 2 ، صفحہ 113 ، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت )

    زادِ راہ پر قادر ہونے پر حج فرض ہونے کے متعلق ہدایہ میں ہے:” الحج واجب علی الاحرار البالغین العقلاء الاصحاء اذا قدروا علی الزاد و الراحلۃ “ ترجمہ:آزاد ، بالغ ، عاقل ، تندرست لو گ جب زادِ راہ اور سواری پر قادر ہوں ، تو ان پر حج فرض ہے ۔

(الھدایۃ ، کتاب الحج ، جلد 1 ، صفحہ 145 ، مطوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت  )

حرام مال کے ساتھ حج کرنے کے متعلق در مختار میں ہے:” و قد یتصف بالحرمۃ کالحج بمال حرام “ترجمہ: اور حج کرنا کبھی حرام ہوتا ہے جیسا کہ مالِ حرام سے حج کرنا ۔

    اس کے تحت رد المحتار میں ہے:” ان الحج نفسہ الذی ھو زیارۃ مکان مخصوص الخ لیس حراما بل الحرام ھو انفاق المال الحرام  قال فی البحر و یجتھد فی تحصیل نفقۃ حلال فانہ لا یقبل بالنفقۃ الحرام کما ورد فی الحدیث مع انہ یسقط الفرض عنہ معھا “ ترجمہ:حج جومخصوص جگہوں کی زیارت الخ کا نام ہے ، وہ فی نفسہ حرام نہیں ہے ، بلکہ مالِ حرام خرچ کرنا حرام ہے بحر میں کہا ہے:حلال نفقہ حاصل کرنے کی کوشش کرے ، کیونکہ حرام نفقہ کے ساتھ حج قبول نہیں ہوتا ۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے اگرچہ حرام نفقہ کے ساتھ بندے سے فرض ساقط ہوجاتا ہے ۔“

( رد المحتار علی الدر المختار ، کتاب الحج ، مطلب فیمن حج بمال حرام ، جلد 3 ، صفحہ 519 ، مطبوعہ کوئٹہ )

    سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاویٰ رضویہ میں مالِ حرام کے ہوتے ہوئے حج فرض ہونے کے متعلق فرماتے ہیں : ” اگر اس کے پاس مالِ حلال کبھی اتنا نہ ہوا ، جس سے حج کر سکے اگرچہ رشوت کے ہزارہا روپے ہوئے ، تو اس پر حج فرض ہی نہ ہوا کہ مالِ رشوت مالِ مغصوب ہے ، وہ اس کا مالک ہی نہیں اور اگر مالِ حلال اس قدر اس کے پاس ہے یا کسی موسم میں ہوا تھا ، تو اس پر حج فرض ہے ، مگر رشوت وغیرہ حرام مال کا اس میں صرف کرنا حرام ہے اور وہ حج قابلِ قبول نہ ہوگا اگرچہ فرض ساقط ہوجائے گا ۔“

( فتاویٰ رضویہ ، جلد 10 ، صفحہ 708 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم