مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:HAB-0448
تاریخ اجراء:25ربیع الثانی 1446ھ/29اکتوبر 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ میں نے آج سے دو تین سال پہلے عمرہ کیا تھا،جس میں مجھ پر ایک دم لازم ہوا تھا، جو میں نے اب تک ادا نہیں کیا،نیت یہ تھی کہ ادا کردوں گا،لیکن بھول گیا،اب میں کراچی سے عمرہ کے لیے آیا اور عمرہ ادا کرلیا، پوچھنا یہ ہے کہ کیا میرا عمرہ ادا ہوگیا یا اس تاخير كے سبب مجھ پر مزید کوئی دم وغیرہ لازم ہوگیاہے؟
نوٹ:سائل نے دم کے متعلق پوچھنے پر بتایا ہے کہ پچھلے عمرے میں انہوں نے ایک ہی مجلس میں ایک ساتھ دونوں ہاتھ پاؤں کے ناخن حالت ِ احرام میں کاٹ لیے تھے۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں اگر آپ نے عمرہ صحیح طریقے سے ادا کیا ہے، تو محض پچھلے عمرہ میں لازم ہونے والے دم کی ادائیگی میں تاخیر کرنے کےسبب اس عمرے میں کوئی حرج واقع نہیں ہوگا اور نہ ہی اس تاخیر کے سبب کوئی دم لازم ہے،کیونکہ دَم کے لازم ہوتے ہی فوراً اس کی ادائیگی کرنا واجب نہیں ہوتا،بلکہ اس میں تاخیر کی بھی اجازت ہے اور اس تاخیر کے سبب اس دوران ادا کیے جانے والے عمرے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔البتہ افضل یہ ہے کہ جتنا جلدی ہوسکے دَم کی ادائیگی کرکے اُسے اپنے ذمہ سے ساقط کردیا جائے،لہٰذا آپ کو چاہئے کہ جوپچھلے عمرے کا دم لازم ہے،اس کو جلد از جلد حرم شریف میں ادا کردیں۔
بدائع الصنائع اور رد المحتار میں ہے،واللفظ للآخر:”في شرح النقاية للقاری:ثم الكفارات كلها واجبة على التراخی، فيكون مؤديا فی أي وقت، وإنما يتضيق عليه الوجوب في آخر عمره فی وقت يغلب على ظنه أنه لو لم يؤده لفات، فإن لم يؤد فيه حتى مات أثم وعليه الوصية به“ترجمہ:علامہ علی قاری علیہ الرحمۃ کی شرح نقایہ میں ہے:پھر تمام کفارات کی ادائیگی علی التراخی واجب ہے،تو جس وقت بھی کفارہ دے دیا جائے ادا کرنا ہی کہلائے گا اور عمر کے آخری حصے میں ایسے وقت میں اس پر فوری ادا کرنے کا وجوب متوجہ ہوجائے گا،جبکہ اس کا ظن غالب یہ ہو کہ اگر اس نے اب ادا نہ کیا تو وقت ختم ہوجائے گا(یعنی اب کفارہ ذمہ پر باقی رہ جائے گا) تو اگر اس نے ایسے وقت میں ادا نہ کیا یہاں تک کہ مرگیا،تو وہ گنہگار ہوگا اور ایسے وقت میں اس پر اس کی ادائیگی کی و صیت کرنا لاز م ہے۔(بدائع الصنائع،ج05،ص 96،دار الکتب العلمیہ)(رد المحتار علی الدر المختار،ج02،ص 543،دار الفکر)
شرح اللباب میں ہے:”(اعلم أن الکفارات کلھا واجبۃ علی التراخی)وانما الفور بالمسارعۃ الی الطاعۃ والمسابقۃ الی اسقاط الکفارۃ افضل،لأن فی تاخیر العبادات آفات(فلایأثم بالتاخیر عن أو ل وقت الامکان ویکون مؤدیالا قاضیا فی أی وقت ادیٰ)لما سبق من ان امرہ لیس محمولاً علی فورہ(وانما یتضیق علیہ الوجوب فی آخر عمرہ فی وقت یغلب علی ظنہ ان لو لم یؤدہ لفات فان لم یؤد فیہ فمات اثم ویجب علیہ الوصیۃ بالاداء (والافضل تعجیل اداء الکفارات)ای مسارعۃ للخیرات“ترجمہ:جان لو کہ تمام کفارے علی التراخی واجب ہیں، البتہ نیکی کے کاموں میں جلدی اور کفاروں کو ساقط کرنے میں سبقت کرنا افضل ہے، کیونکہ عبادات کی تاخیر میں آفات ہیں(لیکن چونکہ فوری ادائیگی واجب نہیں)لہذا ادائیگی پر قادر ہونے کے وقت سے تاخیر کرنے پر گنہگار نہیں ہو گا اور جس وقت بھی ادا کرے گا،ادا کرنے والا ہی کہلائے گا،قضا کرنے والا نہیں کیونکہ یہ بات گزرچکی ہے کہ کفارہ کی ادائیگی کا حکم فوری نہیں۔ البتہ عمر کے آخری حصے میں جب اسےظن غالب ہو جائے کہ اگر اب اس نے ادا نہ کیاتو کفارہ ذمہ پر باقی رہ جائے گا، توایسی صورت میں اسی وقت کفارہ ادا کرنے کا وجوب متوجہ ہو گا اور اگر اس نے ادا نہ کیا اور مرگیا، تو گنہگار ہوگااور کفارہ ادا کرنے کی وصیت کرنا اس پر واجب ہے۔اور افضل یہ ہے کہ کفاروں کی ادائیگی جلد ہی کردی جائے، نیکی کے کاموں میں جلدی کرتے ہوئے۔(لباب المناسک مع شرحه،باب فی جزاء الجنایات وکفاراتھا، صفحه423، دار الکتب العلمیہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیا 65 سال کی بیوہ بھی بغیر محرم کے عمرے پر نہیں جاسکتی؟
کسی غریب محتاج کی مددکرناافضل ہے یانفلی حج کرنا؟
کمیٹی کی رقم سے حج وعمرہ کرسکتے ہیں یانہیں؟
عورت کا بغیر محرم کے عمرے پر جانے کا حکم؟
ہمیں عمرے پر نمازیں قصرپڑھنی ہیں یا مکمل؟
جومسجد نبوی میں چالیس نمازیں نہ پڑھ سکا ،اسکا حج مکمل ہوا یانہیں؟
جس پر حج فرض ہو وہ معذور ہو جائے تو کیا اسے حج بدل کروانا ضروری ہے؟
کیا بطور دم دیا جانے والا جانور زندہ ہی شرعی فقیر کو دے سکتے ہیں؟