Ayyam e Tashreeq Ki Raatein Mina Mein Guzarna Haji Ke Liye Wajib Hai?

ایامِ تشریق کی راتیں مِنیٰ میں گزارنا حاجی کے لیے واجب ہے؟

مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-13278

تاریخ اجراء:05 شعبان المعظم 1445 ھ/16 فروری 2024 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا حاجی کے لیے ایامِ تشریق کی راتیں منیٰ میں  گزارنا واجب ہے؟اگر کوئی منیٰ میں راتیں نہ گزارے، تو کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نو ذوالحجہ کی طلوعِ فجر سے تیرہ ذوالحجہ کی غروب آفتاب تک ایامِ تشریق کہلاتے ہیں، ان میں جو بھی راتیں آئیں ،ان میں سے کوئی بھی رات منیٰ میں گزارنا واجب نہیں، البتہ دسویں ، گیارہویں   کی راتیں یعنی ان کا اکثر حصہ منیٰ میں گزارنااور اگر تیرھویں دن بھی منیٰ میں رہنا ہے، تواب بارھویں کی رات بھی منیٰ میں گزارنا سنتِ مؤکدہ ہے، بلا عذرِ شرعی اس کو ترک کرنا بُرا ہے، البتہ ترک کرنے کی وجہ سے اس پر کوئی کفارہ لازم نہیں ہوگا۔

   واضح رہے کہ حج کے معاملہ میں راتیں گزشتہ دن کے تابع ہوتی ہیں، لہٰذا مذکورہ مسئلہ میں دسویں رات سے مراد وہ رات ہے، جو دس تاریخ کے دن کےبعد آئے،اسی طرح گیارھویں اور بارھویں کی راتوں سے مراد وہ راتیں ہیں، جو گیارہ تاریخ اور بارہ تاریخ کے دن کے بعد آئیں۔

   یہ بھی یاد رہے کہ حج پر جانے سے پہلے بھی آٹھ ذوالحجہ کا دن اور اس کے بعد کی رات منیٰ میں گزارنا سنت مؤکدہ ہے۔

   البحر الرائق میں ہے:”أنها ليست بواجبة ؛ لأن المقصود الرمي لكن هي سنة “یعنی ایامِ رمی کے دوران منیٰ میں رات گزارنا واجب نہیں، کیونکہ مقصود رمی ہے،لیکن رات گزارنا سنت ہے۔(البحر الرائق، جلد 2، صفحہ 374، مطبوعہ بیروت)

   رسائل الارکان میں ہے:”التبییت بمنی تلک الایام لیس واجبا حتی یجب الجابر بترکہ “یعنی منیٰ میں ان ایام کی راتیں گزارنا واجب نہیں کہ اس کے ترک کی وجہ سے کوئی کفارہ واجب ہو۔(رسائل الارکان، صفحہ 728، بیروت)

   طوافِ زیارت کرنے کے بعد رمی کے لیےمنیٰ آنے کے متعلق درمختار میں ہے:”(ثم اتی منی ) فیبیت بھا للرمی“یعنی پھر وہ منی آئے ، پس منیٰ میں رمی کرنے کے لیے رات گزارے۔

   اس کے تحت رد المحتار میں ہے:”ای لیالی ایام الرمی ھو السنۃ فلو بات بغیرھا کرہ ولا یلزمہ شیئ“یعنی(منیٰ میں) ایامِ رمی کی راتیں گزارے، یہ سنت ہے ، لہٰذا اگر منیٰ کے علاوہ کہیں اور رات گزارتا ہے، تو مکروہ ہے اور اس پر کوئی چیز لازم نہیں ہوگی۔(رد المحتار علی الدر المختار،جلد 3،صفحہ 617،مطبوعہ بیروت)

   مناسک ملا علی قاری میں ہے:”(والبیتوتۃ بمنی لیالی ایامہ) ای لمن اختار التاخر الی یوم الرابع ولا ففی لیلتین۔۔۔۔(وھذہ )ای ھذہ المذکورات (ھی المؤکدۃ ) ای السنن المؤکدۃ ۔۔۔(وحکم السنن) ای المؤکدۃ(الاساءۃ بترکھا)ای لو ترکھا عمدا“یعنی ایامِ رمی کی راتیں منیٰ میں گزارنا سنت ہے ،اس شخص کے لیےجس نے  چوتھے دن تک  رکنا اختیار کیا ،ورنہ  دو راتیں ہیں ۔۔۔۔ اور جو ذکر کی گئیں یہ مؤکدہ سنتیں ہیں اور سنن مؤکدہ کا حکم یہ ہے کہ اس کو ترک   کرنا برا ہے جبکہ جان بوجھ کر ترک کیا ہو ۔(مناسک ملا علی قاری، صفحہ 104۔105، مطبوعہ مکۃ المکرمہ)

   مبسوط سرخسی میں ہے:”(إن كان أقام أيام منى بمكة غير أنه يأتي منى في كل يوم فيرمي الجمار فقد أساء ، ولا شيء عليه) لأنه ما ترك إلا السنة ، وهي البيتوتة بمنى في ليالي الرمي “یعنی اگر کسی نے ایامِ منیٰ کے دوران  مکہ میں قیام کیا، لیکن ہر دن منیٰ آکر رمیِ جمار کرتا رہا، تو اس نے بُرا کیا اور اس پر کوئی چیز لازم نہ ہوگی ،کیونکہ اس نے سنت  ترک کی اور وہ سنت رمی کی راتیں منیٰ میں گزارنا  ہے۔(المبسوط، جلد4،صفحہ 67، بیروت)

   علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”ان اللیالی فی الحج فی حکم الایام الماضیۃ لا المستقبلۃ“یعنی حج میں راتیں گزشتہ ایام کے حکم میں ہیں، نہ کے آنے والے ایام کے حکم میں۔(رد المحتار علی الدر المختار، جلد 3، صفحہ 619، مطبوعہ کوئٹہ)

   آٹھ ذوالحجہ کا دن اور اس کے بعد آنے والی رات منیٰ میں گزارنا سنت ہے۔اس کے متعلق لباب المناسک،  حج کی سنتوں کے بیان میں ہے:”(والخروج من مکۃ الی منی یوم الترویۃ)ای بعد فجرہ حتی یصلی خمس صلوات فی منی(والبیتوتۃ)ای کون اکثر اللیل (بمنی لیلۃ عرفۃ)ای لا بمکۃ ولا بعرفات الا لحادث من الضرورات۔۔۔۔(وھذہ )ای ھذہ المذکورات (ھی المؤکدۃ ) ای السنن المؤکدۃ “یعنی یومِ ترویہ(آٹھ ذوالحجہ) منیٰ کی طرف نکلنا سنت ہے یعنی یومِ ترویہ کی فجر کے بعد یہاں تک کہ منیٰ میں پانچ نمازیں پڑھے  اور عرفہ کی رات کا اکثر حصہ منیٰ میں گزارنا ،نہ کہ مکہ اور عرفات میں مگر یہ کہ کوئی شرعی ضرورت درپیش ہو۔۔۔۔ اور جو ذکر کی گئیں یہ مؤکدہ سنتیں ہیں۔(مناسک ملا علی قاری، صفحہ 104۔105،مطبوعہ مکۃ المکرمہ)

   اسی میں ایک اور مقام پر ہے:”(ان بات بمکۃ)وکذا بعرفۃ وغیرھما فالاولیٰ ان یقول :بغیر منی(تلک اللیلۃ جاز واساء) ای لترک السنۃ“یعنی اگر مکہ میں رات گزاری اور اسی طرح عرفہ وغیرہ میں رات گزاری ،پس بہتر یہ تھا کہ مصنف یوں کہتے:منیٰ کے علاوہ یہ رات گزاری تو جائز ہے اور ترکِ سنت کی وجہ سےاس نے برا کیا ۔(مناسک ملا علی قاری، صفحہ 267، مطبوعہ المکۃ المکرمہ)

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ حج کی سنتیں بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں:”دس اور گیارہ کے بعد جو دونوں راتیں ہیں، ان کو منیٰ میں گزارنا اور اگر تیرھویں کو بھی منیٰ میں رہا تو بارھویں کے بعد کی رات کو بھی منیٰ میں رہے۔“(بھارِ شریعت، جلد 1،صفحہ 1051، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   رفیق الحرمین میں ہے:”(7)دسویں، گیارہویں اور بارھویں کی راتیں (اکثر یعنی ہر رات کا آدھے سے زیادہ حصہ)منیٰ شریف میں گزارنا سنت ہے ۔(8)بارھویں کی رمی کر کے غروبِ آفتاب سے پہلے پہلے اختیار ہے کہ مکہ معظمہ زادھا اللہ شرفاً و تعظیما  کو روانہ ہوجائیں،مگر بعدِ غروب چلا جانا معیوب ہے۔ اب ایک دن اور ٹھہرنا اور تیرھویں کو بدستور دوپہر ڈھلے (یعنی ابتدائے وقتِ ظہر )رمی کر کے مکہ شریف جانا ہوگا اور یہی افضل ہے۔“(رفیق الحرمین، صفحہ 203، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم