Aurat Ka Haiz Ki Halat Mein Umrah Karna

عورت کا حیض کی حالت میں عمرہ کرنا

مجیب: مولانا فرحان احمد عطاری مدنی

فتوی نمبر: Web-1047

تاریخ اجراء: 04ربیع االثانی1445 ھ/20اکتوبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   عورت کاحیض کی حالت میں عمرہ کرنے کا کیا حکم ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عمرے کی ادائیگی کرتے ہوئے طواف کرنااس کا رکن یعنی فرض ہے ،اور واجبات ِطواف میں سے ایک واجب نجاست حکمیہ یعنی حیض ونفاس اور جنابت وغیرہ سے پا ک ہونا ہے ۔لہٰذا  عورت حیض کی حالت میں عمرے  کاطواف ہرگزنہ کرے بلکہ مسجدشریف میں بھی داخل نہ ہوورنہ گناہگار ہوگی۔ البتہ یہ ذہن میں رکھیں کہ حیض کی حالت میں عمرے  کا احرام باندھناجائزہے ،یونہی اگر پاکی کی حالت میں احرام باندھاہوتومحض حیض آنے سے احرام کی پابندیاں ختم نہیں ہوں گی ،ان دونوں صورتوں میں عورت پرلازم ہے کہ وہ پاک ہونے کاانتظارکرے جب پاک ہوجائے تو طہارت کی حالت میں تمام افعال عمرہ اداکرکے عمرہ مکمل کرے ۔ یادرہے اگرعورت نے حیض کی حالت میں طواف اور بقیہ ارکان اداکرلیے تو اس کا عمرہ اداہوجائے گامگروہ گناہ گار ہوگی۔ نیز اس پر لازم ہوگا کہ  جب تک مکہ مکرمہ میں ہے اس طواف کااعادہ کرے ، اگرطواف کا اعادہ کیے بغیروطن چلی گئی تو واجب کے ترک کے سبب اس پردم لازم ہوگا۔

   فتاوی عالمگیری  میں ہے:’’واما رکنھا :فالطواف ‘‘یعنی:عمرہ کا رکن طواف ہے ۔(فتاوی عالمگیری،جلد3،صفحہ 262، مطبوعہ بیروت)

   ارشادالساری میں ہے:’’( طواف العمرۃ وھو رکن فیھا)ای فرض ‘‘یعنی:  عمرے کا طواف عمرے میں رکن یعنی فرض ہے ۔(ارشاد الساری  الی مناسک ملا علی قاری،صفحہ97،مطبوعہ بیروت)

   بحر الرائق میں ہے:’’ان الحیض یتعلق بالاحکام :الرابع عشر یحرم الطواف من جھتین دخول المسجد و ترک الطھارۃ لہ‘‘ یعنی:بیشک وہ احکام جو حیض سے تعلق رکھتے ہیں ،چودھواں یہ ہے کہ حالت حیض میں دو وجہوں سے طواف حرام ہو جاتا ہے ،مسجد میں داخل ہونے اورطہارت کے نہ پائے جانے کی وجہ سے۔ (البحر الرائق،جلد1،صفحہ336،مطبوعہدار الکتب العلمیۃ)

   مناسک ملا علی قاری میں طواف کے واجبات بیان کرتےہوئے فرمایا :”الاول الطھارۃ عن الحدث الاکبر والاصغر۔۔۔۔ثم اذا اثبت ان الطھارۃ عن النجاسۃ الحکمیۃ وواجبۃ فلو طاف معھا یصح عندنا “یعنی طواف کے واجبات میں سے پہلی شرط حدث اصغر یعنی بے وضو ہونے اور حدث اکبر یعنی حیض ونفاس اور جنابت سے  پا ک ہو نا ہے ۔۔۔پھر جب یہ  ثابت ہوگیا کہ نجاست حکمیہ سے پاک ہونا واجب ہےتو اگر اس نےا سی حالت میں طواف کیاتو طواف ادا ہوجائےگا۔ (مناسک ملا علی قاری ، ص213،مطبوعہ مکۃ المکرمہ )

   ارشاد الساری میں طواف کے محرمات کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’(الطواف جنبااو حائض او نفساء ) حرام اشد حرمۃ‘‘ یعنی:حالت جنب،حیض اور نفاس میں طواف حرام اشد حرام ہے۔(ارشاد الساری  الی مناسک ملا علی قاری،صفحہ112،مطبوعہ بیروت)

   محیط برھانی میں ہے:’’اذا طاف للعمرۃ محدثا او جنبا فما دام بمکۃ یعید الطواف لان الطواف رکن العمرۃ کطواف الزیارۃ فی الحج و ان رجع الی اھلہ و لم یعد ففی المحدث یلزمہ الشاۃ  وفی الجنب ۔۔۔وفی الاستحسان یکفیہ شاۃ  ‘‘یعنی:اگر کسی نے عمرے کا طواف بے وضو یا جنابت کی حالت میں کیاتو جب تک مکہ مکرمہ میں ہے دوبارہ طواف کرے کیونکہ طواف عمرے کا رکن ہے  جیسا کہ حج میں طواف زیارت ہوتا ہےاور اگر اپنے گھر کو لوٹ گیا تو بے وضوطواف کرنے کی صورت میں ایک بکری اور اسی طرح جنبی کو بھی استحساناً ایک بکری بطور دم دینالازم ہے ۔(المحیط البرھانی،جلد3،صفحہ453،مطبوعہ بیروت)

   ابومحمد مفتی علی اصغر عطاری  مدنی دامت برکاتھم  العالیہ اپنی تصنیف 27 واجبات حج میں فرماتے ہیں:’’اگر کسی نے تمام یا اکثر پھیرے عمرے کے طواف میں جنابت حیض یا نفاس کی حالت میں کیے تو مکہ مکرمہ میں رہتے ہوئے پاکی کی حالت میں اعادہ کرنا واجب ہے اور اگر بے و ضو حالت میں کئے تو پاکی کی حالت میں اعادہ کرنا مستحب ہے اعادہ نہ کیا تو مذکورہ تمام صورتوں میں ایک دم دینا لازم ہوگا۔‘‘(27 واجبات حج،صفحہ152،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم