مجیب: مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-2640
تاریخ اجراء: 29رمضان المبارک1445 ھ/09اپریل2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
میں عرفات میں کام کرتا ہوں، میری
رہائش عرفات میں ہے، میں وہاں سے
احرام باندھ کر عمرہ کے لیے گیا ہوں، کیا اس صورت میں
مجھ پر کوئی کفارہ لازم ہے یانہیں
؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
صورتِ مسئولہ میں آپ نے
میدان عرفات سے ہی عمرہ کا
احرام باندھا ہےاورآپ عرفات کے ہی رہائشی ہیں تو آپ پردم
وغیرہ کچھ لازم نہیں ۔کیونکہ
میدان عرفات حرم سے باہر ہے اور جو لوگ حل میں (میقات کے اندر
اور حدودِ حرم سے باہر) رہنے والے ہیں ،ان کے لئے عمرے کے احرام میں حج
کی طرح حکم یہ ہے کہ حرم کے باہر، کہیں سے بھی احرام
باندھ سکتے ہیں اور گھر سے احرام باندھنا ان کے لئے افضل ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے” ومن كان أهله في الميقات أو داخل الميقات إلى الحرم
فميقاتهم للحج والعمرة الحل الذي بين المواقيت والحرم“ترجمہ:جس کے اہل میقات میں ہوں یا
میقات کے اندر حرم تک والی جگہ میں ہوں تو حج و عمرہ کے لئے ان
کی میقات حل ہے یعنی وہ جگہ جو میقاتوں اور حرم کے
مابین ہے۔(فتاوی
ھندیۃ، ج 1،ص 221،دار الفکر،بیروت)
بہار شریعت میں ہے” جو لوگ میقات کے اندر کے رہنے والے ہیں مگر
حرم سے باہر ہیں اُن کے احرام کی جگہ حل یعنی بیرون
حرم ہے، حرم سے باہر جہاں چاہیں احرام باندھیں اور بہتر یہ کہ
گھر سے احرام باندھیں۔ (بہار شریعت،ج 1،حصہ 6،ص 1068،مکتبۃ
المدینہ)
بنایہ
شرح ہدایہ میں ہے” أن عرفة في الحل“یعنی میدانِ عرفات حل
(حدودِ حرم سے باہر و میقات کے اندر) واقع ہے۔(بنایہ شرح ہدایہ،ج 4،ص 165، دار الكتب العلمية
، بيروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیا 65 سال کی بیوہ بھی بغیر محرم کے عمرے پر نہیں جاسکتی؟
کسی غریب محتاج کی مددکرناافضل ہے یانفلی حج کرنا؟
کمیٹی کی رقم سے حج وعمرہ کرسکتے ہیں یانہیں؟
عورت کا بغیر محرم کے عمرے پر جانے کا حکم؟
ہمیں عمرے پر نمازیں قصرپڑھنی ہیں یا مکمل؟
جومسجد نبوی میں چالیس نمازیں نہ پڑھ سکا ،اسکا حج مکمل ہوا یانہیں؟
جس پر حج فرض ہو وہ معذور ہو جائے تو کیا اسے حج بدل کروانا ضروری ہے؟
کیا بطور دم دیا جانے والا جانور زندہ ہی شرعی فقیر کو دے سکتے ہیں؟