Ahram Ki Niyat Ke Baghair talbiya Parhna-Ahram ke Masail

کیا احرام کی نیت کئے بغیر تللبیہ پڑھنے سے احرام لازم ہوجاتا ہے؟

مجیب:    ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12224

تاریخ اجراء:      06 ذوالقعدۃ الحرام  1443 ھ/06 جون 2022 ء                                                                                                                

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ  اگر ہم اپنے گھر پر سلے ہوئے کپڑے پہنے ہونے کی حالت میں تلبیہ  پڑھ لیں جیسے بعض اوقات ہم ذکر کی نیت سے یا یاد کرنے کی نیت سے تلبیہ پڑھتے ہیں عمرہ یا حج کی نیت نہیں ہوتی،تو کیا اس طرح تلبیہ کہنے سے احرام کی پابندیاں لازم ہوجاتی ہیں ؟سائل:سید رضوان  الحسن

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   احرام کی حالت میں داخل ہونے کے لئے ضروری ہے کہ تلبیہ  سے پہلے  حج یا عمرہ میں سے ایک یا پھر مطلق  مناسک  کی ادائیگی کے لئے احرام کی نیت کرے،لہٰذااگر بلا نیت تلبیہ پڑھ  لی جائے جیسا کہ بعض اوقات یاد کرنے کے لئے یا  ذکر اللہ کی نیت سے تلبیہ پڑھ لی جاتی ہے ،تو اس صورت میں بندہ محرم نہیں ہوجاتا اور اس پر احرام کی پابندیاں بھی لازم نہیں ہوتیں۔

   فتاوی ہندیہ میں ہے:”اما شرطہ فالنیۃ حتی لایصیر محرما بالتلبیۃ بدون نیۃ الاحرام“یعنی بہر حال احرام کی شرط،تو وہ نیت ہے،یہاں تک کہ احرام کی نیت کے بغیر تلبیہ کہنے سے محرم نہ ہوگا ۔(فتاوی ھندیہ، جلد1، صفحہ 245،مطبوعہ:بیروت)

   مبسوط لسرخسی میں ہے:”انما يصير محرما بالتلبية اذا نوى الاحرام فاما بدون النية لا يصير محرما“ یعنی تلبیہ کہنے سے اس وقت محرم ہوگا، جب وہ احرام کی نیت کرے ، بلا نیت (تلبیہ کہہ لیا)تومحرم نہ ہوگا۔(المبسوط لسرخسی، جلد4،صفحہ 187،مطبوعہ:بیروت)

   علامہ علی بن سلطان القاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”تعیین النسک لیس بشرط بل یکفی فی صحتہ ان ینوی بقلبہ ما یحرم بہ من حج او عمرۃ او قران او نسک من غیر تعیین “یعنی نسک کی تعیین شرط نہیں ، بلکہ احرام کے صحیح ہونے کے لئے کافی ہے کہ بلا تعیین اپنے دل سے حج ،عمرہ، قران یا کسی نسک کی نیت کرے۔ ( المسلک المتقسط مع ارشاد الساری، صفحہ 126،مطبوعہ:مکۃ المکرمۃ)

   خاتم المحققین علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”ان صحۃ الاحرام لا تتوقف علی نیۃ النسک ای علی تعیینہ ولیس المراد انھا لاتتوقف علی نیۃ نسک اصلا۔فافھم“یعنی احرام کا صحیح ہونا نیتِ نسک یعنی نسک کی تعین پر موقوف نہیں ،اس سےیہ مراد نہیں کہ اصلاً ہی نیتِ نسک پر موقوف نہیں۔ (ردالمحتار، جلد3،صفحہ 564، مطبوعہ:کوئٹہ)

   مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:”احرام کے لئے نیت شرط ہے ،اگر بغیر نیت لبیک کہا ،احرام نہ ہوا“(بھارِ شریعت، جلد1،صفحہ 1074،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم