Ahram Ki Halat Mein Biwi Ka Hath Pakarne Aur Biwi Ko Chhune Ka Hukum

احرام کی حالت میں بیوی کا ہاتھ پکڑنے/چھونےکا حکم

مجیب:مفتی  محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:FSD-9078

تاریخ اجراء:30صفر المظفر1446ھ/05ستمبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلےکےبارے میں کہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہےکہ جب کسی  لڑکے اور لڑکی کی نئی نئی شادی ہوتی ہے،تو ایسے جوڑوں کو گھر والوں کی طرف سےحاضریِ حرمین طیبین اور عمرہ کے لیے بھیجا جاتا ہے،تو احرام کی حالت میں ان کا اکھٹے اٹھنا بیٹھنا،ایک دوسرے کو چھونا،عمومی سا امر ہے،سوال یہ ہےکہ احرام کی حالت میں میاں بیوی کا ایک دوسرے کو چھونا کیسا؟نیز کیا میاں،بیوی احرام کی حالت میں یا طواف کے دوران کسی ضرورت کے سبب یا بلا ضرورت ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   قوانین شرعیہ کی رُو سے احرام خواہ حج کا ہو یا عمرہ کا اِس حالت میں یا خاص طواف کرتے ہوئے میاں،بیوی کا ایک دوسرے کو چھونا،یا ہاتھ پکڑنا،اگر بلاشہوت ہو،تواس سے کوئی دَم،وغیرہ لازم نہیں آئے گا اور اگر شہوت کے ساتھ چُھو لیا،تو ایسی صورت میں دَم لازم ہو جائےگا ۔

   علامہ کاسانی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:587ھ/ 1191ء) لکھتے ہیں:يجب على المحرم أن يجتنب الدواعي من التقبيل،واللمس بشهوة ، والمباشرة ، والجماع فيما دون الفرج لقوله عزّوجل﴿ فَمَنۡ فَرَضَ فِیۡہِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوۡقَۙ                    وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّؕ﴾(البقرة: 197)“  ترجمہ:مُحرم پر مقدماتِ جماع یعنی شہوت کے ساتھ چھونے،بوسہ لینے، مباشرت(فاحشہ)،شرمگاہ کے علاوہ میں جماع کرنے سے بچنا واجب ہے ، کیونکہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ فَمَنۡ فَرَضَ فِیۡہِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوۡقَۙ                وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّؕ  ترجمہ: جو اِن (حج کے مہینوں )میں حج کی نیت کرے توحج میں نہ عورتوں کے سامنے صحبت کا تذکرہ ہو اورنہ کوئی گناہ ہواور نہ کسی سے جھگڑاہو۔  (بدا ئع الصنائع، کتاب الحج ، جلد3، صفحہ229،مطبوعہ کوئٹہ)

   یہ حکم حج و عمرہ دونوں کے لیے ہے،جیساکہ علامہ سراج الدين عمر بن ابراہیم بن نجیم(سال وفات:1005ھ) لکھتے ہیں:وحرم علیہ ایضاً (دواعیہ) من المس والقبلۃ کما فی الحج والعمرۃ“یعنی معتکف پر مقدمات جماع،چھونا  اوربوسہ لینا بھی حرام ہے،جیساکہ حج وعمرہ میں یہ فعل حرام ہے ۔(النھرالفائق ، جلد2، صفحہ 48، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت)

   فقہائے احناف کا راجح مؤقف یہی ہے کہ احرام کی حالت میں فقط شہوت کے ساتھ چھونا یابوسہ لینا ہی وجوب ِدم  کا سبب ہے ۔تنویر الابصار مع درمختار،لباب المناسک اور دیگر کتبِ فقہ میں ہے،واللفظ للاول:(قبّل او لمس بشھوۃ انزل او لا ) فی الاصح ترجمہ:محرم  نے شہوت کے ساتھ بوسہ لیا یا چھوا،تو اصح قول کے مطابق انزال ہو یا نہ ہو،بہر صورت دَم لازم ہوجائےگا۔(تنویر الابصار مع الدر المختار ،جلد 3،صفحہ 667،مطبوعہ  کوئٹہ )

   جب عورت کو چھونا ، بوسہ دینا،وغیرہ بلا شہوت ہو،جیساکہ اگر عورت کو رخصت کرتے ہوئے اس   کا بوسہ لیا،تو اس صورت میں کچھ بھی لازم نہیں ہو گا،چنانچہ علامہ قاضی حسین بن محمد المکی الحنفی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1366ھ )  لکھتے ہیں:(ولو قبّل امرأته مودعاً لها إن قصد الشهوة )أي:بتقبيل المرأة(فعليه الفدية،وإلا)بأن قصد الموادعة(فلا)أي:فلا فدية عليه(وإن كان قال:لا قصدت هذا)أي:هذا الأمر من الشهوة(ولا ذاك )أي قصد الوداع (لا يجب شيء)لأن الشرط تحقق الشهوة،وعند عدم قصد يوجب الشبهةترجمہ:اور اگر شوہر نےاپنی بیوی کو رخصت کرتے ہوئے اس کا بوسہ لیا ، اگر شہوت کے ساتھ ہو،تو اس پر کفارہ لازم ہے اور اگر صرف رخصت کرنا مقصود ہو(شہوت  کا قصد نہ ہو )تو کفارہ لازم نہیں اگر وہ یہ کہے کہ میرا مقصود نہ شہوت تھا اورنہ ہی  وداع کرنا مقصد تھا،تو کچھ لازم نہیں ہوگا، کیونکہ اس فعل سے کفارہ لازم ہونے میں شہوت کا پایا جانا شرط ہےاور اس کا قصد نہ ہونا شبہ پیدا کر دے گا،(اس لیے کفارہ بھی نہیں ہو گا)۔(ارشاد الساری الی مناسک  الملا علی قاری،فصل فی دواعی الجماع،صفحہ486،مطبوعہ مکۃ المکرمہ)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:مباشرتِ فاحشہ اور شہوت کے ساتھ بوس و کنار اور بدن مس کرنے میں دَم ہے ،اگرچہ انزال نہ ہو اور بلا شہوت میں کچھ نہیں ۔(بھارِ شریعت ، جلد1،حصہ 6، صفحہ1172،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم