نفلی حج افضل ہے یا نفلی صدقہ؟

مجیب:مولانا شاکر صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Sar-7190

تاریخ اجراء:16جمادی الثانی1442ھ/30جنوری2021ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص نے اپنا فرض حج ادا کر لیا ہے ،اب وہ نفل حج کرنا چاہتاہے،توکیانفلی حج کرنا افضل ہے یاکسی حاجت مند کی حاجت روائی کرناافضل ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    نفلی کاموں میں سے کونسانفلی کام افضل ہے، اس بارے میں فقہائے اسلام نے قاعدہ بیان کیاہے کہ جس نفلی کام کی حاجت وضرورت زیادہ ہووہ افضل ہے،لہذااگرکسی علاقے میں مسافرخانے یا پُل وغیرہ کی زیادہ حاجت ہو،تو  یہ بنانا نفلی حج سے افضل ہے، جبکہ نفلی حج، عام صدقات  سے افضل ہے،البتہ اگرکوئی شخص بہت حاجت مند اور تکلیف میں ہےیا نیک لوگوں میں سے کوئی ضرورت مند ہے یا ساداتِ کرام میں سے کوئی محتاج ہے،تواس کی مددکرنانفلی حج سے افضل ہے ،جیساکہ ردالمحتارمیں ہے:”قال الرحمتی:والحق التفصیل، فما کانت الحاجة فیہ أکثر والمنفعة فیہ أشمل فھو الأفضل کما ورد حجة أفضل من عشر غزوات وورد عکسہ فیحمل علی ما کان أنفع، فاذا کان أشجع وأنفع فی الحرب فجھادہ أفضل من حجہ أو بالعکس فحجہ أفضل وکذا بناء الرباط ا ن کان محتاجاا لیہ کان أفضل من الصدقة وحج النفل واذا کان الفقیر مضطرا أو من أھل الصلاح أو من آل بیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقد یکون اکرامہ أفضل من حجات وعمر وبناء ربط“ترجمہ:علامہ رحمتی نے فرمایا:حق یہ ہے کہ اس مسئلہ میں تفصیل ہے:وہ یہ کہ جس کی حاجت زیادہ ہواورنفع زیادہ ہو،تووہ افضل ہے،جیساکہ روایت میں ہے کہ ایک حج دس غزوات سے افضل ہے اور اس کا عکس بھی مروی ہے، اسی طرح اگرمسافر خانہ کی حاجت ہو،تومسافر خانہ بناناصدقہ اورنفلی حج کرنےسےافضل ہےاورجب فقیرمجبورہویا نیک لوگوں میں سےہویاحضورنبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کےاہل بیت میں سےہو،تواس کی عزت افزائی نفلی حج وعمرہ اور مسافر خانہ بنانے سے افضل ہے ۔

(رد المحتار مع الدرالمختار  ،کتاب الحج ،مطلب فی تفضیل الحج علی الصدقة،جلد4،صفحہ55،مطبوعہ کوئٹہ)

    صدرالشریعہ مفتی محمدامجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی لکھتے ہیں:”مسافر خانہ بنانا، حج نفل سےافضل ہےاورحج نفل صدقہ سے افضل یعنی جبکہ اس کی زیادہ حاجت نہ ہو، ورنہ حا جت کے وقت صدقہ حج سے افضل ہے۔ علامہ شامی نے نہایت نفیس حکایت اس بیان میں نقل فرمائی کہ ایک صاحب ہزار اشرفیاں لےکر حج کو جارہے تھے، ایک سیّدانی تشریف لائی اوراپنی ضرورت ظاہر فرمائی،تو انہوں نے سب اشرفیاں نذر کر دیں اور واپس آئے، جب وہاں کے لوگ حج سے واپس ہوئے ،تو ہر حاجی ان سے کہنے لگا، اﷲ(عزوجل)تمہارا حج قبول فرمائے، انہیں تعجب ہو ا کہ کیا معاملہ ہے، میں تو حج کو گیا نہیں، یہ لوگ ایسا کیوں کہتے ہیں؟ خواب میں زیارتِ اقدس(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) سے مشرف ہوئے، ارشاد فرمایا:کیا تجھے لوگوں کی بات سے تعجب ہوا؟ عرض کی، ہاں یا رسول اﷲ! (عزوجل و صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم)فرمایا کہ تو نے جو میری اہلبیت کی خدمت کی، اس کے عوض میں اﷲعزوجل نے تیری صورت کا ایک فرشتہ پیدا فرمایا، جس نے تیری طرف سے حج کیا اور قیامت تک حج کرتا رہے گا۔“

(بھار شریعت،جلد1،صفحہ1216، مکتبة المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم