11 Zil Hajj Ki Rami 12 Zil Hajj Ko Ki To Kya Hukum Hai ?

11 ذو الحجہ کی رمی،12 ذو الحجہ  کو کی تو کیا حکم ہے؟

مجیب:ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2864

تاریخ اجراء: 03محرم الحرام1446 ھ/10جولائی2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ہم دونوں  حج پر گیارہ  ذو الحجہ کی رمی نہیں کر سکے، کیونکہ شدید گرمی کی وجہ سے بلڈ پریشر اور شوگر لو ہوگیا تھا، چل نہیں سکتے تھے، شدید چکر آرہے تھے ،آنکھوں  کے سامنے اندھیرا تھا ۔ نیم بیہوشی کی حالت تھی  اور گرم روڈ پر لیٹے ہوئے تھے،کھڑے نہیں ہوسکتے تھے ،لہذا طبیعت کی خرابی کی وجہ سے  ہم نے وکیل کرکے 11ذو الحجہ والی رمی ،12 ذو الحجہ کو  کروائی  اور 12 ذوالحجہ کو بھی طبیعت اسی  طرح کی تھی،تو 12ذو الحجہ  کی رمی کیلئے بھی وکیل کیا  ،اور اسی وجہ سے  12ذو الحجہ کو ہم نے طواف الزیارہ بھی    ویل چئیر پر کیا تھا۔اب   کیا ایسی صورت میں  ہم پر  دم لازم ہوگا یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   گیارہ اور بارہ ذو الحجہ کی رمی کا وقت زوال(نماز ظہر کے وقت  ) سے شروع ہوکر،اگلے دن صبح صادق تک ہوتا ہے، اس درمیان جب بھی رمی کی جائے،ادا ہوجاتی ہے۔اگر اس وقت کے اندر رمی کرلی  گئی ،یا بوقت عذر وکیل کے ذریعے کروالی  گئی ،تو رمی درست ہوجاتی ہے،اور دم بھی لازم نہیں ہوتا،لیکن اگر اس وقت کے  اندر رمی نہ کی گئی  تو  اس رمی کی قضا کے ساتھ ،تاخیر کا  دم  لازم ہوتا ہے۔

   پوچھی گئی صورت میں چونکہ آپ دونوں نے  وکیل کے ذریعے گیارہ ذوالحجہ کی رمی،بارہ ذوالحجہ کو کروائی  ،جس کی وجہ سے گیارہ ذوالحجہ کی  رمی اپنے وقت سے  مؤخر ہوئی ،لہذا ایسی صورت میں آپ   دونوں پر گیارہ ذو الحجہ کی رمی کی   تاخیر کا  ایک ایک  دم لازم ہوگا۔پھر    اگر  بارہ  ذو الحجہ کو  بھی آپ کی یہی حالت تھی جو آپ نے سوال میں بیان کی اور  آپ کے اندر اتنی طاقت   بھی  نہیں تھی کہ آپ  دونوں  ویل  چئیر   پر جاکر رمی کرسکتے،یا  اتنی طاقت تھی مگر وہاں تک ویل چئیر پر کوئی لے جانے والا نہیں تھا،تو اس صورت میں  آپ کا  بارہ  ذوا لحجہ کی  رمی کیلئے  دوسرے کو   وکیل کرنا درست تھا،اور اس   وکیل کے رمی کرنے سے آپ کی  رمی ادا     ہوگئی ،اور آپ پر  صرف   ایک  دم کی ادائیگی لازم ہوگی ۔واضح رہے کہ     دم کی ادائیگی حدود حرم میں کرنا ضروری ہے۔

   گیارہ اور بارہ ذوالحجہ کی رمی کا وقت، اور رمی کو اس کے وقت سے مؤخر کرنے سے متعلق، لباب المناسک  اور اس کی شرح میں ہے: ’’(وقت رمی الجمار الثلاث فی الیوم الثانی والثالث  من ایام النحر بعد الزوال۔۔۔ والوقت المسنون فی الیومین یمتد الی الزوال الی غروب الشمس ،ومن الغروب الی طلوع الفجر  وقت مکروہ واذا طلع الفجر  فقد فات وقت الاداء۔۔۔فلو اخرہ عن وقتہ فعلیہ القضاء والجزاء)وھو لزوم الدم‘‘ملتقطاً۔ترجمہ:ایام نحر کے دوسرے اور تیسرے  دن ،تینوں جمروں کی رمی کا وقت زوال کے بعد ہے۔۔۔اور دونوں دنوں میں مسنون وقت زوال سے آفتاب ڈوبنے تک رہتا  ہے اور غروب سے طلوع فجر تک مکروہ وقت ہے،جب فجر طلوع ہوگئی  تو رمی کی ادا کا وقت فوت ہوگیا۔۔۔اگر کسی نے  رمی کو اس کے وقت سے مؤخر کیا،تو اس پر قضا اور جزاء یعنی دم لازم ہوگا۔(لباب المناسک مع شرحہ،باب رمی الجمار و احکامہ، صفحہ334،339 ،مطبوعہ مکۃ المکرمۃ)

   المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط میں ہے:’’وان لم یرم حتی اصبح رماھا من الغد وعلیہ دم عند ابی حنیفۃ للتاخیر‘‘ترجمہ:اور اگر کسی دن رمی نہ کی،یہاں تک کہ صبح ہوگئی،تو اس دن کی رمی  اگلے دن کرے ،اور امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس پر تاخیر کا دم لازم ہوگا۔(المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط ،فصل فی الجنایۃ  فی رمی الجمرات، صفحہ508،مطبوعہ مکۃ المکرمۃ)

   رمی پر قادر نہ  ہونے  کی صورت میں وکیل   کرنا درست ہوتا ہے،چنانچہ لباب المناسک میں ہے: ’’الخامس :أ ن یرمی بنفسہ ،فلا تجوز النیابۃ عند القدرۃ،و تجوز عند العذر ‘‘ترجمہ:رمی کی پانچویں شرط یہ ہے کہ وہ خود سے رمی کرے ،لہذا قدرت کے وقت نائب بنانا جائز نہیں،اور عذر کے وقت جائز ہے۔(لباب المناسک مع شرحہ،باب رمی الجمار و احکامہ،صفحہ349،مطبوعہ مکۃ المکرمۃ)

   بہار شریعت میں ہے:’’جو شخص مریض ہو کہ جمرہ تک سواری پر بھی نہ جا سکتا ہو، وہ دوسرے کو حکم کر دے کہ اس کی طرف سے رَمی کرے۔‘‘(بہار شریعت،جلد1،حصہ6،صفحہ1148،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم