Zania Se Nikah Ke 2 Mahine Baad Bacha Paida Hua Tu Us Ke Nasab Ka Hukum

زانیہ سے نکاح کے دو ماہ بعد بچہ پیدا ہوا، تو کیا مرد سے اس بچے کا نسب ثابت ہوگا؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13079

تاریخ اجراء:        16ربیع الثانی1445 ھ/01نومبر 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ زید نے ہندہ سے زنا کیا جس سے ہندہ حاملہ ہوگئی۔  پھر زید نے ہندہ ہی سے نکاح کیا اور نکاح کے تقریباً دو ماہ بعد ہندہ کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا اس بچے کا نسب زید سے ثابت ہوگا؟ اور زید کی جائیداد میں اس بچے کا حصہ ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   استغفر اللہ!زنا ، ناجائزوحرام، جہنم کا مستحق بنانے والا،بے حیائی پر مشتمل کام ہے ، اس  کی شدید مذمت قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہے۔  اس برے فعل سے بچنا ہر مسلمان پر شرعاً لازم و ضروری ہے۔  پوچھی گئی صورت میں زید اور ہندہ دونوں پر شرعاً لازم ہے کہ توبہ کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے اس گناہ سے صدقِ دل سے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں توبہ کریں اور آئندہ اس گناہ سے باز رہیں، نیز ہر اس چیز سے دور بھاگیں  جو اس گناہ میں معاون و مددگار بنے۔

   البتہ پوچھے گئے سوال کے جواب  میں ضابطہ یہ ہے کہ کسی عورت سے زنا کیا پھر اُسی زانیہ عورت  سے نکاح کیا اور چھ مہینے یا زائد میں بچہ پیدا ہوا تو بچے کا نسب اس زانی مرد سے ثابت ہوگا اور چھ مہینے سے کم  میں بچہ پیدا ہوا تو نسب  ثابت نہیں ہوگا۔  صورتِ مسئولہ میں نکاح کے تقریباً دو ماہ بعد وہ بچہ پیدا ہوا ہے لہذا پوچھی گئی صورت میں اس بچے کا نسب زید سے ثابت نہیں ہوگا اور وہ بچہ زید کی وراثت میں حقدار  بھی نہیں ہوگا۔

   زنا کی مذمت پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے:وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً ؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲)ترجمہ کنزالایمان : ” اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ ۔“(القرآن الکریم: پارہ 15، سورۃ بنی اسرائیل، آیت 32)

   زنا کی نحوست اور اس کی ہولناکی کا اندا زہ درج ذیل احادیثِ مبارکہ سے لگائیےصحیح بخاری میں حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث ہے کہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:رايتُ الليلة رجلين اتيانی فاخذا بيدي فاخرجانی الى الارض المقدسة۔۔۔فانطلقنا الى ثقبٍ مثل التنّور اعلاه ضيق واسفله واسعٌ يتوقّد تحته نارٌ فاذا اقترب ارتفعوا حتى كاد ان يخرجوا فاذا خمدت رجعوا فيها وفيها رجال ونساء عراةٌ فقلتُ: من هذا؟ قالا:۔۔۔والذی رايتَه فی الثقب فهم الزناۃیعنی میں نے رات کے  وقت دیکھا کہ دوشخص میرے پاس آئے اور مجھے مقدس سر زمین  کی طرف لے گئے  (اس حدیث میں  چند مشاہدات بیان فرمائے اُن میں  ایک یہ بات بھی ہے) ہم ایک سوراخ کے پاس پہنچے جو تنور کی طرح  اوپر سے تنگ اور نیچے سے کشادہ تھا، اُس میں آگ جل رہی ہے  اور اُس آگ  میں  کچھ مرد اور عورتیں برہنہ ہیں۔ جب آگ کا شعلہ بلند ہوتا ہے تو وہ لوگ اوپر آجاتے ہیں  اور جب شعلے کم ہو جاتے ہیں تو شعلے کے ساتھ وہ بھی اندر چلے جاتے ہیں۔ میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟  تو فرشتوں نے عرض کی  یہ زانی مرد اور عورتیں ہیں۔(صحیح بخاری، کتاب الجنائز،باب ما قيل فی اولاد المشركين، ج 02،ص100، دار  طوق النجاۃ ، ملتقطاً)

   نکاح کے بعد چھ مہینے سے کم میں بچہ پیدا ہوا تو اس کا نسب مرد سے ثابت نہیں ہوگا۔ چنانچہ فتاوٰی عالمگیری وغیرہ کتبِ فقہیہ میں ہے :”إذا تزوج الرجل امرأة فجاءت بالولد لأقل من ستة أشهر منذ تزوجها لم يثبت نسبه ، وإن جاءت به لستة أشهر فصاعدا يثبت نسبه منه ، اعترف به الزوج أو سكت‘‘ یعنی مرد نے  کسی عورت سے نکاح کیا  اور وہ عورت نکاح کے بعد چھ مہینے سے کم میں بچہ  پیدا کر دے تو اس بچے کا نسب مرد سے ثابت نہیں ہوگا۔  اور اگر چھ ماہ یا اس سے زائد پر بچہ پیدا ہو تو اس بچے کا نسب مرد سے ثابت ہوگا خواہ مرد اس کا اقرار کرے یا خاموش رہے۔(فتاوٰی عالمگیری ، کتاب الطلاق، باب ثبوت النسب، ج 01، ص 536، مطبوعہ پشاور)

   فتح القدیر میں ہے :”(قوله وإذا تزوج الرجل امرأة فجاءت بولد لأقل من ستة أشهر منذ يوم تزوجها لم يثبت نسبه) لأن أقل مدة الحمل ستة أشهر فلزم كونه من علوق قبل النكاح ، وإن جاءت به لأكثر منها ثبت ، ولا إشكال سواء اعترف به الزوج أو سكت، وكذا إذا جاءت به لتمام الستة بلا زيادة لاحتمال أنه تزوجها واطئا لها فوافق الإنزال النكاح ، والنسب يحتاط في إثباته ‘‘ یعنی مرد نے  کسی عورت سے نکاح کیا اور وہ عورت چھ مہینے سے کم میں بچہ  پیدا کر دے تو بچے کا نسب مرد سے ثابت نہیں ہوگا، کیونکہ کم از کم مدتِ حمل چھ ماہ ہے ۔ اس سے کم میں بچہ پیدا ہونے پر یہ بات لازم ہے کہ یہ حمل نکاح سے پہلے کا ہے۔ اور اگر  عورت چھ ماہ سے زائد پر بچہ پیدا کرے  تو بچے کا نسب باپ سے ثابت ہوگا، خواہ مرد اس کا اقرار کرے یا خاموش رہے۔ اسی طرح اگر پورے چھ ماہ پر بچہ پیدا ہو تو  بچے کا نسب مرد سے ثابت ہوگا اس احتمال کی بنا پر کہ  مرد نے نکاح کرتے ہی وطی کی ہوتو  انزال نکاح کے برابر مدت میں واقع ہوا، اور نسب کے اثبات میں احتیاط سے کام لیا جاتا ہے۔(فتح القدير على الهداية ، کتاب الطلاق، باب ثبوت النسب، ج 04، ص 89، دار الفکر، لبنان)

   بہارِ شریعت میں ہے: ” کسی عورت سے زنا کیا پھر اُس سے نکاح کیا اور چھ مہینے یا زائد میں بچہ پیدا ہوا تو نسب ثابت ہے اور کم میں ہوا تو نہیں اگرچہ شوہر کہے کہ یہ زنا سے میر ا بیٹا ہے۔(بہارِ شریعت، ج02، ص 251، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   فتاوٰی امجدیہ میں ایک سوال کے جواب میں مذکور ہے: ” جس عورت کو زنا کا حمل ہے اس حالتِ حمل میں نکاح درست ہے پھر اگر نکاح اسی سے ہوا جس کا حمل ہے تو وہ وطی بھی کرسکتا ہے اور دوسرے سے ہوا تو نہیں کرسکتا، یہ لڑکا اگر وقتِ نکاح سے چھ مہینہ یا زیادہ میں پیدا ہوا ہے تو اسے ولد الزنا نہیں کہہ سکتے، اور چھ ماہ سے کم میں پیدا ہواہے تو ناجائز اولاد ہے یعنی اللہ بخش کا لڑکا نہیں قرار پائے گا۔(فتاوٰی امجدیہ، ج02، ص 295، مکتبہ رضویہ کراچی)

   ولد الزنا وراثت میں حقدار نہ  ہوگا۔ جیسا کہ سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ایک سوال  کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں: ”اگر زوجہ نکاح میں ہے اور سالی سے زنا کیا تو زوجہ سے قربت بھی حرام نہ ہوگی، نہ اس کی اولاد ولد الحرام ہوگی، سالی سے جو بچے ہوں گے ولد الزنا ہوں گے اور زید کا ترکہ نہ پائیں گے ۔ “(فتاوٰی رضویہ، ج 11، ص 272، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   مزید ایک دوسرے مقام پر فتاوٰی رضویہ میں ہے: ” (مرتد)سے جو اولاد ہوگی قطعاً ولدالزنا ہوگی اور ترکہ پدری سے مطلقا محروم کہ ولد الزنا کے لیے شرعا کوئی باپ ہی نہیں۔ “(فتاوٰی رضویہ، ج 11، ص 329، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم