Transgender Ki Sharai Hesiyat

ٹرانسجینڈر(Transgender)کی شرعی حیثیت ؟

مجیب: ابوالفیضان عرفان احمدمدنی

مصدق: مفتی محمدقاسم عطاری

فتوی نمبر: Sar7961

تاریخ اجراء:       11محرم الحرام 1444 ھ/10اگست 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ Transgender قانون کیاہے؟کیونکہ سننے میں یہ آرہاہے کہ اس قانون کے ذریعے کوئی بھی شخص اپنی جنس  یااپنی جنسی شناخت تبدیل کرسکتا ہے ، یعنی  کوئی بھی مرداگریہ کہے کہ میری  جنسی شناخت مرد سے عورت لکھ دی جائے ، توبغیرکسی میڈیکل ثبوت کے صرف اس کے کہنے پرادارہ جنس تبدیل کرنے کا پابند ہوگا،جس کے بعدوہ شخص عورت تصور کیا جائے گااوراس پرتمام قوانین عورتوں کے لاگو ہوں گے، حتی کہ وہ خواتین کے تعلیمی اداروں میں داخلہ لے سکےگا ،وہ کسی مردسے نکاح کرسکے گا،اس کاوراثت میں وہی حق تسلیم کیا جائے گا جوقانونی طورپرکسی عورت کا ہوتا ہے۔تواس  طرح قانون کی وجہ سے ہم جنس پرستی کو جواز مل جائے گا ، توکیاکسی بھی اسلامی حکومت کے لئے یہ جائزہے کہ وہ اس  قسم کی قانون سازی کرے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ٹرانسجینڈر(Transgender)کی شرعی حیثیت ؟

اس سوال کے جواب میں ہم تین اعتبارسے گفتگوکریں گے۔

(1) ٹرانسجینڈر (Transgender)کسے کہتے ہیں؟

(2) اس قانون کے نِفاذپرشرعی طورپرلازم آنے والی چندخرابیاں؟

(3)کیاکسی بھی اسلامی حکومت کے لئے اپنے ملک میں ایساکوئی قانون نافذ کرنا ، جائزہے ؟

(1)ٹرانسجینڈر(Transgender)کسے کہتے ہیں؟

   ٹرانسجینڈر ایک جدید مغربی اِصطلاح ہے ۔

   لفظ   Transgender“دو اَلفاظ سے مُرَکَّب ہے۔

   Trans کے معنی'' منتقل ''یا '' تبدیل '' کرنا،جبکہ gender کے معنی '' جنس ''کے ہیں۔

   مندرجہ ذیل تعریف اقوامِ متحدہ کی دستاویز سے لی گئی ہے۔

   مَرد یاعورت جواپنی پیدائشی جنسی شناخت سے اِنحراف کرکے اپنی جنسی شناخت (Gender Identity)بدل لیتے ہیں۔مثلاًمر دسے عورت یاخنثیٰ،یاعورت سے مر دیا خنثی یا بے جنس ہو نا چاہتے ہیں یا اس کے علاوہ کوئی دوسری  جدید شناخت اختیار کرتے ہیں۔

   ان میں سے بعض طِبِّی طریقہ کارکواختیارکرتے ہوئے ہارمون تھیراپی یاسرجری وغیرہ بھی کروالیتے ہیں۔انہیں ٹرانس سیکشوئل (Transsexual)بھی کہا جا تا ہے۔

   اوربعض صرف پیدائشی جنس سے مختلف Gender Expression یعنی جنسی اِظہار کرتے ہیں یعنی وَضْع قَطْع، حُلْیَہ، لباس اور اَطوار بدل لیتے ہیں۔انہیں کراس ڈریسر (Cross Dresser)بھی کہا جاتا ہے ۔

(2)اس قانون کے نِفاذ پرشرعی طورپرلازم آنے والی چند خرابیاں

   لفظ ٹرانسجینڈر کے کثیرالمعانی ہونے اورسوال میں کی گئی وضاحت کوسامنے رکھتے ہوئے  ایسے کسی بھی قانون میں ضروری ،شرعی قُیُودات کوشامل کیے بغیرمُطْلَق رکھ کربنانے اورنافذکرنے  میں جوبہت سی شرعی خرابیاں لازم آئیں گی ،ان میں سےچندایک درج ذیل ہیں :

1.               جھوٹ اور دھوکا دہی کا راستہ کھل جائے گا۔

2.                اَحکامِ شَرْع کے نِفاذ میں مشکل ہوگی۔

3.               اَعْضاء کو کاٹتے ہوئے تَغْیِیرلِخَلْقِ اللہ اورمُثْلَہ(یعنی خلقت تبدیل کرنے)کاراستہ کھل جائےگا۔

4.                ہم جنس پرستی کو فروغ ملے گا۔

5.               مَردو عورت کا ایک دوسرے سے مُشابہت اختیارکرنا قانونی طور پر جائز ہوجائے گا۔

6.                بے پردگی و بے حیائی کوفروغ ملے گا۔

(1)جھوٹ اور دھوکا دہی کا راستہ کھل جائے گا:

   اس قانون کے نتیجے میں کوئی بھی شخص اپنے  لیے مُخَنَّث ہونے کادَعْویٰ کرسکتا ہے،جبکہ حقیقت میں وہ مَرد و عورت میں کچھ بھی ہوسکتا ہے  اوراس کے اس دعوے کو محض اس کے گمان پر یقین رکھتے ہوئے بغیر کسی ثبوت اور شرعی طریقہ کا ر کو اختیار کیے بغیر  مان لیا جائے گا ،تو  اس میں صریح جھوٹ اوردھوکے کا راستہ کھل جائے گا ، جبکہ جھوٹ بولنااوردھوکا دینادونوں ہی ناجائزوحرام اورجہنم میں لے جانے والے کام ہیں۔

   قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ﴿لَعْنَتَ اللہِ عَلَی الْکٰذِبِیۡنَ ﴾یعنی :جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے ۔( سورہ آل عمران ،آیت 61)

   رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جھوٹ کے متعلق فرمایا:’’ایاکم والکذب، فان الکذب یھدی الی الفجور وان الفجور یھدی الی النار وان الرجل لیکذب ویتحری الکذب حتی یکتب عند اللہ کذابا‘‘ ترجمہ: جھوٹ سے بچو، کہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم میں لے جانے کا سبب ہیں ۔کوئی شخص جھوٹ بولتا اور سوچتا رہتا ہے حتّٰی کہ اللہ کی بارگاہ میں جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔(سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب فی التشدید في الکذب، جلد 2، صفحہ 339، مطبوعہ لاهور)

   اورنبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دھوکا دینے والوں کی مذمت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’من غشنا فلیس منا‘‘ ترجمہ : جو ہمیں دھوکا دے، وہ ہم میں سے نہیں ۔ ‘‘(الصحیح لمسلم، کتاب الایمان، جلد 1، صفحہ 70، مطبوعه کراچی)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتےہیں:’’غَدَر و بد عہدی مطلقاً سب سے حرام ہے مسلم ہو یا کافر، ذمی ہو یا حربی، مستامن ہو یا غیر مستامن، اصلی ہو یا مرتد ۔ ‘‘(فتاوی رضویہ، جلد 14، صفحہ 139، رضا فاؤنڈیشن، لاهور)

   اورمزیدیہ کہ  حقیقی  خُنْثیٰمیں سے  بھی کون مرداور کون عورت کے حکم میں ہوگا؟اس کافیصلہ توشریعتِ مُطَہَّرَہ نے کرناہےاورشریعتِ مطہرہ میں  اس کاایک مکمل طریقہ کارموجود ہے ، لہٰذا اسی طریقے کوسامنے رکھ کرہی طے کیاجاسکے گاکہ کون کس قسم سے تعلق رکھتاہے ،تو جب حقیقی مُخَنَّث میں بھی یہ لازم ہے کہ شریعت کے وَضْع کردہ طریقے کو اپنایا جائے ، توجس کے اَوَّلاً مُخَنَّث ہونے میں ہی شک ہو ، تو اس میں اس طریقے کو چھوڑ کر محض گمان  کرنے یاکسی کے کہہ دینےپرہی فیصلہ کرنا،بالکل بھی درست نہیں ، بلکہ ایساکرنے میں شریعتِ مطہرہ کے اَحکام کی خلاف ورزی لازم آئے گی، جبکہ ہرشخص اللہ تعالیٰ اوراس کے پیارےرسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بنائے ہوئے قوانین پرعمل کرنے کاپابندہے۔

(2)اَحکامِ شَرْع کے نِفاذ میں مشکل ہوگی:

   خُنْثیٰ ہونے  کاغلط دعویٰ مان لینے سےیہ  ہوگاکہ ظاہری اعتبارسے  اس پرخُنْثیٰ کے اَحکام لاگو ہوجائیں گے،حالانکہ  حقیقتِ حال اس سے مختلف ہوگی یعنی وہ  شریعت کے ان  اَحکامات کا مخاطب نہ  ہوگااورپھرخنثیٰ ہونے کادعویٰ کر لینے کے بعداس قانون کے تحت  چونکہ کوئی بھی مَرد خود  کو عورت اور کوئی بھی عورت خود کو مَرد قرار دے سکتی ہے،تواس کے بعد اَحکام شرعیہ کے نفاذ  میں مُشکلات پیدا ہوں گی ۔ جیسا کہ وراثت کہ اس میں خنثیٰ کے اَحکام جُدا ہیں کہ ان کے جسم میں پائی جانے والی علامتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا جائے گاکہ انہیں مردکے اعتبار سے وراثت دینی ہے یاعورت کے اعتبار سے اور یونہی جوحقیقت میں عورت ہے ، لیکن مردہونے کادعوی کرنے کی بناء پر اسے مرد قرار دیا گیا ہوگا اور جو حقیقت میں مردہوگا ، اسے اس کے عورت ہونے کادعوی کرنے کی بناء پرعورت قرار دیاگیا ہوگا ، توان  کی وراثت میں جوحصہ شریعت کے مقررکردہ اصول وضوابط کے مطابق بنتاہو گا ، اس کاخلاف کرنا لازم آئے گا ، جبکہ میراث اللہ کی طرف سے مقرر کیا ہوا حق ہے ، جوجس کے  لیے جتنامقررکیاگیاہے اسے اتناہی ملے گا ، جبکہ جھوٹ بول کراپنے آپ کومردیاعورت لکھوانا ،بعض صورتوں میں دیگرورثاء  کامال ناحق کھانے کولازم کرے گا ، جبکہ قرآن وحدیث میں اس کی شدیدممانعت بیان فرمائی گئی ہے۔

   قرآن مجیدمیں ارشادِباری تعالیٰ ہے:﴿ وَلَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمْوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالْبَاطِلِ ﴾ترجمہ کنزالایمان:”اورآپس میں ایک دوسرے کامال ناحق نہ کھاؤ۔ “(سورة بقرہ،آیت 188)

   وراثت میں مَردوں اورعورتوں کے حصے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہونے کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿لِلرِّجَالِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوٰلِدَانِ وَالۡاَقْرَبُوۡنَ ۪ وَلِلنِّسَآءِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوٰلِدَانِ وَالۡاَقْرَبُوۡنَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ اَوْکَثُرَ ؕ نَصِیۡبًا مَّفْرُوۡضًا ﴾ترجمہ کنزالعرفان:مَردوں کے لئے اس (مال) میں سے (وراثت کا) حصہ ہے جوماں باپ اور رشتے دار چھوڑ گئے اور عورتوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتے دار چھوڑ گئے ، مالِ وراثت تھوڑا ہو یازیادہ۔(اللہ نے یہ) مقررحصہ (بنایاہے)۔(سورہ نساء،پارہ4،آیت7)

    (3) اعضا کو کاٹتے ہوئے تَغْیِیرلِخَلْقِ اللہ اورمُثلہ(یعنی اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں خلافِ شرع تبدیلی کرنا)

   اس قانون سے  جنسی اَعضاءکوتبدیل کروانے کی راہ ملے گی ، اس کوسہارا بنا کراعضا ء میں قطع و برید کرنے کاقانونی جواز مِل جائے گا اور لوگ اپنے اعضا ء کو کاٹتے ہوئے تَغْیِیرلِخَلْقِ اللہ اور مُثْلہ کرنے کے جُرْم کے مرتکب ہوں گے اور اپنے آپ کو خَصی کرنا یا مرد و عورت کا اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں ایسی تبدیلی کرناحرام ہے۔قرآن پاک میں ہے کہ شیطان نے مَردُود ہونے کے بعدخداکی بار گاہ میں ایک بات یہ کہی تھی کہ وہ لوگوں سے کہے گا،تو وہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چیزوں کو ضروربدل دیں گے اورآج اگرآپریشن کے ذریعے جنس تبدیل کروائی جاتی ہے،تو یہ وہی شیطان کے دعوے کی تصدیق اوراس کے حکم پرعمل ہے۔

   چنانچہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے:﴿ وَّ لَاُضِلَّنَّهُمْ وَ لَاُمَنِّیَنَّهُمْ وَ لَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَیُبَتِّكُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ وَ لَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰهِ   ؕ-وَ مَنْ یَّتَّخِذِ الشَّیْطٰنَ وَلِیًّا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِیْنًا ﴾ترجمہ کنز العرفان : اور میں ضرور انہیں گمراہ کروں گا اور انہیں امیدیں دِلاؤں گا ، تو یہ ضرور جانوروں کے کان چیریں گے اور میں انہیں ضرور حکم دوں گا تویہ اللہ  کی پیدا کی ہوئی چیزیں بدل دیں گے اور جو اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو دوست بنائے تووہ کھلے نقصان میں جاپڑا۔(پارہ4،سورہ نساء،آیت119)

   مُفَسِّرقرآن شیخ الحدیث والتفسیرابوالصالح مفتی محمدقاسم قادری عطاری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ اس آیت کی تفسیرمیں لکھتے ہیں:”شیطان نے ایک بات یہ کہی کہ وہ لوگوں کو حکم دے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چیزیں ضرور بدلیں گے۔

   یاد رہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں خلاف ِ شرع تبدیلیاں حرام ہیں۔ احادیث میں اس کی کافی تفصیل موجود ہے۔“(تفسیر صراط الجنان، جلد 2، صفحه 312 ، 313، مكتبة المدينه، کراچی)

   اللہ تعالیٰ کی تخلیق کوبدلنے کے بارے  میں صحیح مسلم شریف میں ہے:”لعن اللہ الواشمات و المستوشمات و النامصات و المتنمصات و المتفلجات للحسن المغيرات خلق اللہ تعالیٰ“ ترجمہ : گُودنے والیوں  ، گُدوانے  والیوں  ، چہرے کے بال نوچنے والیوں  ، نُچوانے  والیوں  اور خوبصورتی کے لیے دانتوں کو کشادہ کرنے والیوں  اوراللہ تعالیٰ کی تخلیق کو بدلنے والیوں پر اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے۔(الصحیح لمسلم، کتاب اللباس والزينة، باب تحريم فعل الواصلة، جلد 2، صفحہ 205، مطبوعہ کراچی)

   اور ق اللہ اور موانے کی راہ ملے گی  اور یہ تمُثلہ کرنے کے بارے میں حدیث پاک میں ہے:عن النبی صلی اللہ عليه وسلم انه نهى عن النهبة والمثلة “ترجمہ: نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کسی کامال لُوٹنے اور مُثلہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (صحیح البخاری، کتاب الذبائح، باب ما يكره من المُثلة، جلد 2، صفحہ 829، مطبوعہ کراچی)

(4) ہم جنس پرستی کافروغ:

   اس قانون کی وجہ سے ایک مرد اپنے آپ کو کاغذات میں عورت  لکھوا کر  دوسرے مرد سے  جنسی تعلق قائم کر سکتا ہے ، یونہی ایک عورت اپنے آپ کر مرد لکھوا کر دوسری عورت سے جنسی تعلق قائم کرسکتی ہے جو کہ ایک شنیع و قبیح فعل ہے،قرآن کریم، اَحادیثِ مبارکہ اور بزرگانِ دین کے فَرامین میں  مرد کا مرد اور عورت کا عورت سے ایسا قبیح تعلق قائم کرنے کی سخت مذمت بیان کی گئی ہے۔

   چنانچہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت لُوط عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام پرکیے ہوئے احسانات کوبیان کرتے ہوئے تیسرااحسان یہ بیان فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس بستی سے نجات بخشی جہاں کے رہنے والے لواطت وغیرہ گندے کام کیا کرتے تھے ، کیونکہ وہ بُرے لوگ اور نافرمان تھے ۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿وَّنَجَّیْنٰهُ مِنَ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ كَانَتْ تَّعْمَلُ الْخَبٰٓىٕثَ   ؕ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمَ سَوْءٍ فٰسِقِیْنَ﴾ترجمہ کنز العرفان : اور اسے اس بستی سے نجات بخشی جو گندے کام کرتی تھی بیشک وہ بُرے لوگ نافرمان تھے۔(پارہ17،سورہ الانبیاء،آیت74)

(5)مَردو عورت کا ایک دوسرے سے مُشابہت اختیار کرنا:

   اس قانون کے نتیجے میں مَرد وعورت کاایک دوسرے سے مُشابہت اِختیار کرنا پایا جائے گا، جبکہ شریعتِ مطہرہ نے مَرد وعورت کوایک دوسرے سے مُشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے اورایسے مَر دوں پر لعنت کی گئی کہ جو عورتوں کی مشابہت اختیارکر یں اورایسی عورتوں پر لعنت کی گئی جو مَردوں کی مشابہت اختیار کریں ، بلکہ مرد و عورت کو ایسے لباس تک پہننے سے منع کردیا گیاکہ جس میں دوسری جنس سے مشابہت ہوتی ہو ، تو جب فقط مشابہت اختیار کرنے سے بھی منع فرما دیا گیا، تو اپنی جنس تبدیل کروا کرعورت کا مر داور مرد کاعورت بن جاناکیسے جائزہوسکتاہے؟یہ تو مُشابہت سے ہزاروں گنازیادہ سخت ، قبیح اورخبیث عمل ہے۔

   مردانہ وضع اختیار کرنے والی عورتوں  اورزنانہ وضع اختیارکرنے والے مَردوں کے متعلق صحیح بخاری، جامع ترمذی، سنن ابو داؤد ، ابن ماجہ اور دیگرکُتُبِ اَحادیث میں حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے مروی ہے ، آپ فرماتے ہیں:” لعن رسول اللہ صلى اللہ علیه و سلم المتشبهين من الرجال بالنساء و المتشبهات من النساء بالرجال“ ترجمہ: رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے لعنت فرمائی ان مَردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کر یں اور ان عورتوں پر جو مَردوں کی مشابہت اختیار کر یں۔ (صحیح البخاری، کتاب اللباس، باب :المتشبهون بالنساء۔۔۔، جلد 2، صفحہ 874، مطبوعہ کراچی)

(6)بے پردگی وبے حیائی کوفروغ ملے گا:

   اس قانون کے نتیجے میں بے پردگی اوربے حیائی کوفروغ ملے گاکہ ایک شخص مردہونے کے باوجود صرف کاغذات میں اپنے آپ کو عورت لکھوا کرلڑکیوں کے درمیان جا سکتا ہے اورسرِ عام بے حیائی و بے پردگی کرسکتا ہے جوکہ سخت ناجائزوگناہ ہےاوراگرمَعَاذَ اللہ!حقیقۃً  جنس کی تبدیلی  کے ذریعے مر دعورت بنے یاعورت مردبنے ،تواس میں ایک خرابی یہ ہے کہ  ایسے آپریشن میں بلا وجہ شرعی مرد و عورت کو اپناستر دوسروں کے سامنے کھولناپڑتاہے اور دوسرا شخص یعنی ڈاکٹر بلا وجہ شرعی ان اَعضاء کو دیکھتا اور چُھوتا ہے اور یہ عمل حرام ہے ، کیونکہ یہ عمل اِسلام جیسے خوبصورت دین کی اعلیٰ انسانی فطرت و جِبِلَّت یعنی حیا کے صریحاً خلاف ہے اور پوشیدہ اَعضاء کو بلا عذر شرعی دیکھنا، چھونا ، دونوں کام  ہی ناجائز و حرام ہیں کہ مرد کو ناف سے لے کر گھٹنوں سمیت اپنا ستر چھپانا لازم ہے اور بلاضرورتِ شرعیہ اس کا تَرْک حرام ہے۔

   عورتوں  کو  پردہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :﴿وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا﴾ترجمہ کنز العرفان  : اور اپنی زینت نہ دکھائیں ، مگر جتنا( بدن کا حصہ )خود ہی ظاہر ہے۔(پارہ 18، سورة النور، آیت 31)

   دوسرے کے ستر کی طرف نظر کرنے کے بارے میں صحیح مسلم میں ہے :” ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: لا ينظر الرجل إلى عورة الرجل، ولا المرأة إلى عورة المرأة “ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مرد، مرد کے ستر کی طرف نظر نہ کرے اور عورت ، عورت کے ستر کی طرف نظر نہ کرے۔(الصحیح لمسلم، کتاب الحيض، باب تحريم النظر إلى العورات، جلد 1، صفحه 266، مطبوعہ بیروت)

   بد نگاہی کرنے اور کروانے والے پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے ، چنانچہ شعب الایمان اور السنن الکبری للبیہقی میں ہے:”عن الحسن قال : بلغنی ان رسو ل اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال: لعن اللہُ الناظرَ والمنظورَ إليه “ ترجمہ : حضرت حسن رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں، مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: بد نگاہی کرنے والے اور کروانے والے پر اللہ عزوجل کی لعنت ہے۔(السنن الكبرى للبيهقی، کتاب النکاح، جلد 7، صفحہ 159، مطبوعہ بیروت)

(3)کیاکسی بھی اسلامی حکومت کے لئے اپنے ملک میں ایساکوئی قانون نافذ کرنا، جائزہے ؟

   اوپربیان کی گئی گفتگوسے معلوم ہواکہ ٹرانسجینڈرقانون اگرضروری وشرعی قُیُودات کوشامل کیے بغیر مُطْلَق رکھ کربنایاجائے ، تو کثیرحرام کاموں کامجموعہ  ہے اوراسلام اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتاکہ کوئی بھی اسلامی حکومت  اپنے ملک میں ایساکوئی بھی قانون نافذ کرے ، بلکہ ایسے کسی بھی قانون کونافذکرنااوراس کی تائیدکرناسخت ناجائز و حرام ہے اورجہنم میں لے جانے والاکام ہے۔

   اوریادرکھیے! اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی مخلوقات میں انسان کوسب سے افضل واشرف پیداکیاہےاورجس طرح اس کائنات میں اپنی تمام مخلوقات کے جوڑے بنائے ہیں،اسی طرح انسانوں کے اندربھی مرداور عورت کوپیدا کیا ہے تاکہ انسان نسل دَرْنسل اس دنیا پر اپنی خلافت قائم رکھ سکیں ۔ یوں یہ پورا نظامِ کائنات چل رہا ، جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی حکمت کے مطابق جس انسان کوجیساہونا چاہیے تھا ، ویسا بنایا، مرد وعورت دونوں کو الگ الگ اَعضائے مخصوصہ عطا فرمائے ، جن کے ذریعے تَوَالُد کا نظام آگے بڑھتا ہے۔اب اگر کوئی اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے اس نظامِ عالَم  میں فقط  اپنی جنسی خواہشات کی تسکین کے لیے تبدیلی لائے ، تو بلا شبہ وہ شخص حرام و ناجائز فعل کا مُرتکب کہلائے گا اور سخت گنہگار اور جہنم کاحقدارٹھہرے گا،اورخُنْثیٰ (Intersex) کے کئی احکام جُدا ہیں اوراس کے لیے  ایسے اَفْراد کو شرعی رہنمائی لینی چاہیے۔لہٰذاتمام مسلمانوں کوچاہیے  کہ اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف سے دئیے گئے اَحکام کے مطابق اپنی زندگی بسرکریں،کہ اسی میں دنیاوآخرت کی بھلائیاں ہیں۔

   اللہ تبارک وتعالیٰ تمام مسلمانوں کوایسے کسی بھی قانون بنانے،اس کی تائیدکرنے اورعمل کرنے سے محفوظ فرمائے۔آمین

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم