Qabrustan Mein Bakriyan Charane Ka Hukum

قبرستان میں بکریاں چرانے کا حکم

مجیب: مولانا عابد عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1180

تاریخ اجراء: 23جمادی الاول1445 ھ/08دسمبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   قبرستان میں بکریاں چرانے کا کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   قبرستان میں بکریاں چرانا، ناجائز و حرام ہے ۔البتہ قبروں پر موجود خشک گھاس کاٹ کر الگ سے بکریوں کو ڈال دی جائے تو یہ جائز ہے لیکن قبر پر موجود تر گھاس کو کاٹنے کی اجازت نہیں۔

   فتاویٰ رضویہ میں ہے:”قبرستان میں جو گھاس اگتی ہے جب تک سبز ہے اسے کاٹنے کی اجازت نہیں۔ جب سوکھ جائے تو کاٹ کر جانوروں کےلئے بھیج سکتے ہیں مگر جانوروں کا قبرستان میں چرانا کسی طرح جائز نہیں مطلقاً حرام ہے قبروں کی بے ادبی ہے، مذہبسِ اسلام کی توہین ہے، کھلی مذہبی دست اندازی ہے۔ ردالمحتار میں بحرالرائق اور درر الحکام اورغنیہ اورامداد الفتاح اورفتاوٰی قاضیخان سے ہے:یکرہ قطع النبات الرطب من المقبرۃ دون الیابس۔ قبرستان سے تر گھاس کاٹنا مکروہ ہے خشک کاٹنا مکروہ نہیں۔(ت)

   فتاوٰی عالمگیری میں ہے:لوکان فیہا حشیش یحش ویرسل الٰی الدواب ولاترسل الدواب فیہا کذافی البحرالرائق اگر قبرستان میں گھاس ہوتو کاٹ کر چو پاؤں کی طرف ڈالی جائے نہ کہ چوپاؤں کو اس کی طرف چھوڑاجائے، جیسا کہ البحر الرائق میں ہے۔(فتاوی رضویہ ، جلد16، صفحہ 537، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   فتاویٰ فقیہ ملت میں ہے:”اگر قبرستان کی گھاس سوکھ گئی ہے ، تو اسے کاٹ کر جانوروں وغیرہ کے لئے لے جا سکتے ہیں ، لیکن اس میں جانوروں کو چرانا اور کھونٹا گاڑنا پھر اس میں بکریوں کو باندھنا اور اس کی ہری گھاسوں کو کاٹ لے جانا ہر گز جائز نہیں ، تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس کی گھاس کاٹنے والوں اور اس میں جانور باندھنے والوں و چرانے والوں کو روکیں۔“(فتاویٰ فقیہ ملت،جلد2، صفحہ186، شبیر برادرز ، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم