Paise Lekar Baad Mein Aane Wale Mareez Ko Jaldi Doctor Ke Paas Bhejna

 

رقم لے کر بعد میں آنے والے مریض کو جلدی ڈاکٹر کے پاس بھیجنا کیسا؟

مجیب: محمد ساجد  عطاری

مصدق: مفتی ابوالحسن  محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر: JTL-1954

تاریخ اجراء: 27 ربیع الاول    1446 ھ/02 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ  ڈاکٹر کے پاس مختلف مریض ایک وقت میں جمع ہو جاتے ہیں۔ زید کی وہاں یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ سب آنے والے مریضوں کو ترتیب کے ساتھ اس کی باری کا نمبر دے دیتا ہے۔ زید کو بعض اوقات مریض آفر کرتے ہیں کہ  کچھ پیسے  لے کر ان کو ڈاکٹر کے پاس  جلدی بھیج دیا جائے۔سوال یہ ہے کہ زید کا رقم لے کر بعد میں آنے والے مریض کو جلدی بھیج دینا کیسا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں زید  کا بعد میں آنے والے مریض  سے پیسے لے کر  اسے ڈاکٹر کے پاس جلدی بھیج  دیناسخت گناہ، حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔جلدی بھجوانے کے لیے جو رقم دی جاتی ہے ،یہ رقم رشوت ہے۔کیونکہ یہ رقم اپنا کام نکلوانے کے لیے صاحب معاملہ کو دی جارہی ہے ۔ اور  قوانین شرعیہ کے مطابق اپنا کام نکلوانے کے لیے کسی کو کچھ دینا رشوت کہلاتاہے۔ اور ہر مسلمان جانتا ہے کہ رشوت کا لین دین اسلام میں حرام ہے۔ اور رشوت لینے دینے والے پر خدا کی لعنت برستی ہے ۔ نیز اس طرح پیسے لے کر کسی کو جلدی بھیجنے کی صورت میں پہلے سے لائن میں لگے ہوئے لوگوں کی حق تلفی   بھی ہوتی ہے۔ لہذا زید کو  چاہیے وہ ایسے کسی بھی مریض سے رقم  لے کر اسے ڈاکٹر کے پاس جلدی نہ بھیجا کرے۔ اور پہلے جو ہو چکا اس سے بھی توبہ کرے ۔ اور اگر کسی سے ایسی رقم لی ہے، تو یہ حرام رقم ہر ممکن کوشش کر کے اس کے مالک کو واپس کرے۔ وہ نہ رہا ہو، تو اس کے ورثاء کو دے ۔ اور اگر مالک تک پہنچنا ممکن نہ ہو، تو اس حرام رقم سے جان یوں چھڑائے کہ اتنی رقم کسی ایسے غریب مسلمان کو دے دے جو زکوٰۃ کا مستحق اور شرعی فقیر ہو۔

   اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے:﴿ سَمّٰعُوۡنَ لِلْکَذِبِ اَکّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ ﴾ترجمہ کنز الایمان:’’بڑے جھوٹ سننے والے ، بڑے حرام خور۔ ‘‘(القرآن،پارہ6،سورۃ المائدہ،آیت42)

   مذکورہ بالا آیت کریمہ کے تحت حضرت علامہ ابو بکر احمد جصاص علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ”اتفق جمیع المتاولین لھذہ الآیۃ علی ان قبول الرشاءحرام، و اتفقو انہ من السحت الذی حرمہ اللہ تعالی“ ترجمہ:اس آیت کی وجہ سے  تمام مفسرین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ بے شک رشوت  قبول کرنا حرام ہے اور اس بات پر (بھی) اتفاق کیا کہ رشوت اس ”سُحت“ میں سے ہے،جسے اللہ تبارک و تعالی نے حرام فرمایا ہے۔             (احکام القرآن للجصاص،جلد2،صفحہ541، دار الكتب العلميہ،  بيروت)

   حدیثِ پاک میں ہے:”لعن رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم الراشی والمرتشی“ ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم نے رشوت دینے اور لینے والے پر لعنت فرمائی۔ (جامع الترمذی،جلد 03،صفحه 615،مطبوعہ مصر)

   رشوت کی تعریف کے متعلق  البحر الرائق شرح کنز الدقائق میں ہے:”الرشوۃ ۔۔۔ما یعطیہ الشخص للحاکم وغیرہ لیحکم لہ اویحملہ علی ما یرید “ملتقطا ترجمہ:رشوت: وہ چیز جو کوئی شخص حاکم یا کسی اور کو اس غرض سے دیتا ہے کہ وہ اس کے حق میں فیصلہ کرے یا اسے اس کام پر آمادہ کرے جو وہ چاہتا ہے۔(البحر الرائق شرح کنز الدقائق،کتاب القضاء،جلد 06،صفحه 285،دار الكتاب الإسلامي، بیروت)

   امام اہلسنت اعلی حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”رشوت لینا مطلقاً حرام ہے ۔ کسی حالت میں جائز نہیں ۔ جو پرایا حق دبانے کے لیے دیا جائے رشوت ہے ، یوہیں جو اپنا کام بنانے کے لیے حاکم کو دیا جائے رشوت ہے ۔“          (فتاوی رضویہ، جلد 23،صفحہ 597،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور) صدر الشریعہ بدر الطریقہ علامہ امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ تحریر فرماتے ہیں: ’’دربان کو یہ جائز نہیں کہ لوگوں سے کچھ لے کر اندر آنے کی اجازت دے دے۔(بھار شریعت، جلد 02، صفحہ 899، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   جو پہلے آتا ہے اس کا حق پہلے ہوتا ہے ، اس حوالے سے امام ابو بكر جصاص علیہ الرحمۃ تحریر فرماتے ہیں:’’ من جاء أولا استحق النظر في أمره، ۔۔۔۔؛ لأن السابق قد استحق ذلك قبل مجيء الآخر، فلا يسقط مجيء الآخر حقه في التقديم‘‘ ترجمہ:  جو پہلے آئے، وہ اپنے معاملے میں غور کیے جانے کا حق دار ہوتا ہے، کیونکہ جو پہلے آیا، وہ اس حق کا مستحق ہو چکا ہے، اور بعد میں آنے والے کا آنا اس کے حقِ تقدیم کو ساقط نہیں کرتا۔ (شرح مختصر الطحاوي، جلد 08، صفحه 14، دار البشائر الإسلاميہ)

   حرام مال لے لیا ہو، تو  اس کا حکم بیان کرتے ہوئے امام اہل سنت سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن  لکھتے ہیں: ”زر حرام والے کو یہ حکم ہوتا ہے کہ جس سے لیا اسے واپس دے وہ نہ رہا اس کے وارثوں کو دے ، پتہ نہ چلے، تو فقراء پر تصدق کرے۔ یہ تصدق بطورِ تبرع و احسان و خیرات نہیں بلکہ اس لیے کہ مال خبیث میں اسے تصرف حرام ہے اور اس کا پتہ نہیں جسے واپس دیا جاتا ،لہذا دفعِ خبث و تکمیلِ توبہ کےلیے فقراء کو دینا ضرور ہوا۔“

(فتاوی رضویہ، جلد 17، صفحہ 352، رضا فاؤنڈیشن لاھور)

   ایک اور جگہ لکھتے ہیں : ”جومال رشوت یاتغنی یاچوری سے حاصل کیا ،اس پرفرض ہے کہ جس جس سے لیا اُن پر واپس کردے، وہ نہ رہے ہوں اُن کے ورثہ کو دے، پتا نہ چلے تو فقیروں پرتصدق کرے، خریدوفروخت کسی کام میں اُس مال کالگانا حرام قطعی ہے، بغیر صورت مذکورہ کے کوئی طریقہ اس کے وبال سے سبکدوشی کانہیں۔ “(فتاوی رضویہ، جلد23، صفحہ551و 552، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم