مجیب:مولانا اعظم عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-2852
تاریخ اجراء: 01محرم الحرام1446 ھ/08جولائی2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
ایک شخص کی چکی ہے ، وہ گندم
پیس کرآٹا بنا کردیتاہے ،اس شخص نے اپنی ضرورت کی وجہ سے
کسی دوسرے شخص کی پوٹلی سے اس کی اجازت کےبغیر پیسے نکالے اور استعمال کرلیے
۔پھر جب اس چکی والے شخص کے پاس پیسےآئےتو اس نے پوٹلی والے کو زیادہ اچھا آٹا واپس کیا یعنی پوٹلی والا اس کے پاس گندم پسوانے کےلیے
آیا توا س نے اسے اچھا اور زیادہ آٹا دےدیا تو ایسا کرنا
کیسا ہے؟ جبکہ اس شخص کو معلوم نہیں ہے کہ مجھے زیادہ آٹا دیا
گیا ہے۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
کسی شخص کی اجازت کے بغیر اس
کا مال لےلینا ،شرعا ناجائز و گناہ
اور حرام ہے، اس لیے اولاتو اس شخص پر لازم ہے کہ
اپنے اس فعل سےسچی توبہ کرے
۔
ثانیا:پوچھی گئی صورت
میں جب اس شخص نے پوٹلی سے پیسے نکال کرخرچ کرلیے
ہیں تو اب ان پیسوں کے عوض اچھا اور زیادہ آٹا دینے سے
بری الذمہ نہیں ہوگا بلکہ اس پر لازم ہے کہ مالک کو پیسے ہی
واپس کرے ،پیسوں کے علاوہ کوئی دوسری چیز دینا
کافی نہیں ہوگا کیونکہ
پیسے مثلی ہوتےہیں اور مثلی چیز ہلاک کرنے پر مثل
کے ساتھ تاوان دینا ہی لازم ہوتا ہے۔البتہ پوچھی
گئی صورت میں پیسےواپس کرنے میں یہ
ضروری نہیں کہ مالک کو بتاکر واپس
کرے بلکہ کسی بھی طرح یا کسی بھی نام سےاس
کے پیسے اس تک پہنچا دیتا ہےتو بری الذمہ ہوجائےگا ۔
اللہ عزوجل
ارشادفرماتاہے:﴿ لَا
تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ ﴾ترجمہ
کنزالایمان : آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ۔ (پارہ 5،سورۃالنساء
،آیت29)
سنن
الدارقطنی میں ہے” أن النبي صلى الله
عليه وسلم قال: لایحل مال امرء مسلم الاعن طیب نفس“ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ تعالی
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:”کسی مسلمان کامال بغیراس
کی رضاکے لیناحلال نہیں ہے ۔(سنن الدارقطنی،رقم الحدیث 2886،جلد3،صفحہ424،مؤسسۃ
الرسالۃ، بیروت)
ردالمحتار
میں ہے”لایجوز لاحد من المسلمین اخذ مال
احد بغیر سبب شرعی“ ترجمہ:
کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ بغیر کسی سبب
شرعی کے کسی کا مال لے۔(رد المحتار علی الدر المختار،ج 4،ص 61،دار الفکر،بیروت)
درمختار میں ہے”يجب ردمثله إن هلك وهو مثلي “ترجمہ: اور مثلی چیز غصب کی ہوتو اس
کی مثل لوٹانا ہی واجب ہوتا ہے ۔(در مختار مع رد المحتار،کتاب الغصب،ج 6،ص 183،دار
الفکر،بیروت)
بہار شریعت
میں ہے” غاصب کے واپس کرنے کے لیے یہ
ضروری نہیں ہے کہ اس طرح واپس کرے کہ مالک کو علم ہو جائے ۔اگر
اس کی لاعلمی میں چیز واپس کر دی بری
ہوگیا مثلاًاس کے صندوق یا تھیلی میں سے روپے نکال
لے گیا تھا پھر اس میں رکھ آیا اور مالک کو پتا نہ چلا یہ
واپسی بھی صحیح ہے، یوہیں اگر کسی دوسرے نام
سے مالک کو دے دی جب بھی بری ہو جائے گا مثلاً مالک کو ہبہ
کیا یا ودیعت کے نام سے اسے دے آیا ۔۔۔
جو چیز غصب کی اور وہ ہلاک ہوگئی اس کی دو صورتیں
ہیں اگر وہ چیز قیمی ہے تو قیمت تاوان دے اور
مثلی ہے تو اس کی مثل تاوان میں دے ۔"(بہار شریعت،ج 3،حصہ 15،ص 211،212،مکتبۃ
المدینہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
غیر مسلم سے زنا کاحکم؟
زانیہ بیوی سے متعلق حکم
کیا آئندہ گناہ کرنے کی نیت سے بھی بندہ گنہگار ہوجاتاہے؟
سجدۂ تحیت کے متعلق حکم
پلاٹ کی رجسٹری کے نام پر مٹھائی لینا کیسا؟
رشوت کے تحفے کا حکم
شراب پینے سے کب وضو ٹوٹے گا؟
امتحانات میں رشوت لے کر نقل کروانا کیسا ؟