Nabaligh Bacha Chori Kare Tu Kya Hukum Hai ?

 

نابالغ بچہ چوری کرے تو کیا حکم ہے ؟

مجیب:مولانا محمد شفیق عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3046

تاریخ اجراء: 28صفر المظفر1446 ھ/03ستمبر2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

      نا بالغ چوری کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   چوری کرنا ،ناجائز و حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے،البتہ نا بالغ  چونکہ شرعی احکامات کا  مکلف نہیں  ہوتا، اس لئے اگر وہ چوری کرے تو  اسے گناہ تو نہیں ملے گا ،لیکن  جواس نے جوچیزچوری کی ہے ،وہ اگرموجودہوتواسے مالک تک پہنچاناضروری ہے اوراگروہ موجودنہ ہوتوپھراس کاتاوان اس پر ضرور  لازم ہوگا،جواصل مالک کو ادا کیا جائے گا، اوراگراصل مالک نہ رہا ہو،  تو اس کے وارثوں کو ،اور وہ بھی  نہ ہوں، تو  ثواب کی نیت کے بغیرشرعی فقیر  کو صدقہ کر دیا جائے گا۔

   شعب الایمان میں حدیث پاک ہے: عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: رفع القلم عن ثلاثة: عن الصبي حتى يحتلم، وعن المعتوه حتى يفيق، وعن النائم حتى يستيقظ ترجمہ:ام المومنین سیدتنا عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تین شخصوں سے  قلم اٹھا لیا گیا ہے،نا بالغ بچہ سے یہاں تک کہ وہ بالغ ہوجائے،پاگل سے یہاں تک کہ وہ صحیح ہوجائے،سوئے ہوئے شخص سے یہاں تک کہ وہ بیدار ہوجائے۔(شعب الایمان،رقم الحدیث 86،ج 1،ص 186، مكتبة الرشد،ریاض)

   حاشیہ سندی علی سنن ا بن ماجہ  میں لکھا ہے”(رفع القلم) كناية عن عدم كتابة الآثام عليهم في هذه الأحوال وهو لا ينافي ثبوت بعض الأحكام الدنيوية والأخروية لهم في هذه الأحوال۔۔۔ولهذا أن الصحيح أن الصبي يثاب على الصلاة وغيرها من الأعمال“ترجمہ:"مرفوع القلم ہونا "  اس (نابالغی کی )  حالت میں ان کے گناہ نہ لکھے جانے سے کنایہ ہے،لیکن یہ اس بات کے منافی نہیں ہے کہ  اس (نابالغی کی ) حالت میں بعض دنیوی و اخروی  احکامات  ان کے لئے ثابت ہوتے ہیں ،اسی لئے یہ بات درست ہے کہ نابالغ  نماز وغیرہ کوئی نیک عمل کرے، تو اس پر اسے ثواب ملے گا۔ (حاشیۃ السندی علی سنن  ابن ماجہ،ج 1،ص  629،دار الجیل،بیروت)

   امام علاؤ الدین ابو بکر بن مسعود کاسانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:”فأهلية وجوب القطع وهي: العقل، والبلوغ فلا يقطع الصبي، والمجنون لما روي عن النبي عليه الصلاة والسلام  أنه قال: رفع القلم عن ثلاثة: عن الصبي حتى يحتلم  وعن المجنون حتى يفيق وعن النائم حتى يستيقظ۔۔۔وفي إيجاب القطع إجراء القلم عليهما ،وهذا خلاف النص ،ولأن القطع عقوبة فيستدعي جناية، وفعلهما لا يوصف بالجنايات؛ولهذا لم يجب عليهما سائر الحدود كذا هذا، ويضمنان السرقة “ ترجمہ : (چور کے ہاتھ کاٹنے کے لئے اہلیت کا  ہونا ضروری ہے)پس وجوبِ قطع کی اہلیت عقل و بلوغ (بھی) ہے،لہذا نابالغ اور مجنون  کے ہاتھ نہیں کاٹے جائیں گے،اس لئے کہ نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم  کا مبارک فرمان ہے: تین شخصوں سے  قلم اٹھا لیا گیا ہے،نا بالغ بچہ سے یہاں تک کہ وہ بالغ ہوجائے،پاگل سے یہاں تک کہ وہ صحیح ہوجائے،سوئے ہوئے شخص سے یہاں تک کہ وہ بیدار ہوجائے۔نیز  ہاتھ کاٹنے سے ان دونوں (مجنون و نابالغ) پر قلم جاری کرنا ہے،اور یہ نص کے خلاف ہے،مزید یہ کہ ہاتھ کاٹنا ایک عقوبت (سزا) ہے،اور عقوبت  جرم کا متقاضی ہے،جبکہ ان دونوں کا  کوئی فعل جرم کے ساتھ متصف نہیں ہوتا،اسی لئے ان دونوں پر  کوئی بھی  حد نہیں لگ سکتی ،لہذا اس (چوری کے مسئلہ میں بھی)  ایسا ہی ہے،(البتہ) یہ دونوں ( نابالغ و مجنون)  چوری کا تاوان دیں گے۔(بدائع الصنائع،کتاب السرقۃ،ج 7،ص 67،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)

   فتاوی ہندیہ میں ہے "وهل يضمن السرقة؟ إن كان استهلكها يضمن، وإن كانت قائمة ردها على المسروق منه"ترجمہ: اورکیاچوری کی گئی چیزکاتاوان دے گا؟اگرتواس نے وہ چیزہلاک کردی ہے تواس کاتاوان دے گااوراگروہ چیزموجودہوتوجس کی چوری کی ہے اسے واپس کردے گا۔ (فتاوی ہندیہ،ج03،ص429،دارالفکر،بیروت)

   امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان  رحمۃ اللہ تعالی علیہ چوری کے مال کے بارے میں فرماتے ہیں:"جومال رشوت یاتغنی یاچوری سے حاصل کیا،اس پرفرض ہے کہ جس جس سے لیا اُن پر واپس کردے، وہ نہ رہے ہوں اُن کے ورثہ کو دے، پتا نہ چلے تو فقیروں پرتصدق کرے، خریدوفروخت کسی کام میں اُس مال کالگانا حرام قطعی ہے، بغیر صورت مذکورہ کے کوئی طریقہ اس کے وبال سے سبکدوشی کانہیں۔      " (فتاوی رضویہ،ج 23،ص 551، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   بہارشریعت میں ہے "وہ چیز جس کے چورانے پر ہاتھ کاٹا گیا ہے اگر چور کے پاس موجود ہے تو مالک کو واپس دلائیں گے اور جاتی رہی تو تاوان نہیں اگرچہ اس نے خود ضائع کردی ہو۔ اور اگر بیچ ڈالی یا ہبہ کردی اور خریدار یا موہوب لہ نےضائع کردی تو یہ تاوان دیں اور خریدار چور سے ثمن واپس لے۔ اور اگر ہاتھ کاٹا نہ گیا ہو تو چور سے ضمان لے گا۔" (بہارشریعت ،ج02،حصہ09،ص421،مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم