Medicine Company Ki Taraf Se Doctor Ko Di Jany Waly Mukhtalif Offers Ka Hukum?

میڈیسن کمپنی کی طرف سے ڈاکٹر کو دی جانے والے مختلف آفرز کا حکم؟

مجیب:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:Pin-6746

تاریخ اجراء:29شوال المکرم1442ھ10جون2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے  بارےمیں  کہ کئی میڈیسن کمپنیاں  مختلف ڈاکٹرز کو اپنی میڈیسن بیچنے کی ترغیب دلاتی ہیں  اور اس  کے لیےکمپنی والے ڈاکٹرز کو مختلف آفرز بھی کرتے ہیں ،مثلاً :ہم آپ کو فرنیچر بنوا دیں گے یا  ایک مہینے   میں اتنی مرتبہ فلاں بڑے ہوٹل میں آپ کو ہماری طرف سے  فیملی سمیت کھانا کھلایا جائے گا یا فلاں  ملک کی سیر کے لیے ٹکٹ دیا جائے گا وغیرہ وغیرہ ۔ سوال یہ ہے کہ میڈیسن کمپنی کا ایسی آفر کرنا اور ڈاکٹرزکا ان کی آفر کو قبول کرنا کیسا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   صورت مسئولہ میں میڈیسن کمپنی کا  فرنیچر بنوا دینے یا اس جیسی دیگر قیمتی اشیاء کی آفر  کرنا اور ڈاکٹرز کا اسے قبول کرنا رشوت ہونے کی وجہ سے ناجائز و حرام ہے، کیونکہ ڈاکٹرزحضرات کو  مختلف  کمپنیزکی طرف سے جواشیاء دی جاتی ہیں ،وہ دوطرح کی ہوتی  ہیں:

   (1)قیمتی اشیاء:مثلاًفر نیچر ،گاڑی ،مختلف تفریحی مقامات کی ٹِرپ، دیگر ممالک کے سفر کے لیے ٹکٹ ، A.C  وغیرہ ۔کمپنی اس طرح  کی مختلف قیمتی  اشیاء ڈاکٹرزحضرات کوصرف اس لیے دیتی ہے  کہ وہ اپنی میڈیسن زیادہ سے زیادہ سیل کروائیں، بلکہ کئی مرتبہ کمپنی کی طرف سے باقاعدہ  یہ طے ہوتا ہے کہ ان سہولیات کے بدلے آپ کو ہماری اتنی دوائیں سیل کروانی  ہوں گی ، تواس  سے واضح ہوتا ہے کہ یہ اشیاء اپناکام نکلوانے  کے لیے دی جاتی ہیں اوراپنا کام نکلوانے کے لیےکسی کو کچھ دینارشوت کے زمرے میں آتاہے ،لہذااگرڈاکٹر اس کا مطالبہ  کرے، تویہ رشوت کامطالبہ ہے اوراگرمطالبہ نہ بھی کرے، تب بھی صراحۃً یادلالۃً طے ہونے کی صورت میں یہ رشوت ہی ہے اوررشوت لینا دینا   ناجائز وحرام اورجہنم میں  لے جانے والاکام ہے۔

   یہاں یہ بات بھی واضح  رہے کہ ان اشیاء کوکمیشن  یا تحفہ قراردینادرست نہیں ،کمیشن اس لیے نہیں کہ  ڈاکٹر جو دوائی لکھ کر دے رہا ہے وہ تو اس کا کام ہے اور وہ علاج کی رقم بھی وُصول کرتا ہے ،کمپنی کے لیے  اس نے جُداگانہ کوئی ایسا کام نہیں کیا جس کی اُجرت  وکمیشن  کا مستحق بنتا ہو اورتحفہ اس لیےنہیں کہ تحفہ  وہ ہوتاہےجس میں کسی شخص کو بغیرکسی عوض کسی چیزکامالک بنایاجائے ،جبکہ یہاں بغیرعوض نہیں،بلکہ اپناکام بنانے کے لیے یہ اشیاء دی جاتی ہیں۔

   (2)معمولی اشیاء:مثلاًدوائیں ،قلم اور پیڈ وغیرہ یہ اشیاء عموماً کمپنی اپنی  Advertisement(مشہوری) کے لیےڈاکٹرزحضرات کو دیتی ہے کہ اکثران میں کمپنی  کانام موجودہوتاہے اورعموماًیہ اشیاء معمولی قیمت کی ہوتی ہیں، لہذااگرکمپنی اس کے بدلے اپنی Products (مصنوعات)  بیچنے کاپابندنہیں کرتی ، تویہ بغیرکسی عوض اپنی شے کاکسی کومالک بنانا ہوا ، جو شرعی  اعتبار سے تحفے کے حکم میں آتاہے ،جیساکہ بہت سے ادارے سالانہ اپنی ڈائری جاری کرتے ہیں اور مختلف لوگوں کومفت دیتے ہیں،لہٰذا اس مُعامَلے پرعُرف جاری ہونے کی وجہ سے ان معمولی اشیاء کا لینا اور کمپنی کا انہیں دینا جائز ہے۔

   حضرت سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:” لعن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم الراشی والمرتشی والرائش يعنی  الذی يمشی بينهمایعنی:نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نےرشوت لینے والے ،رشوت دینے والے اوررائش یعنی ان دونوں کے درمیان  رشوت کے لین دین میں کوشش کرنے والے (دلال )پرلعنت فرمائی۔(مسنداحمد، ج37،ص85، مؤسسۃ الرسالۃ ، بیروت)

   اپنا کام نکلوانے کے لیے کسی کو کچھ دینا رشوت ہے۔چنانچہ بحر الرائق میں ہے:”ما یعطیہ الشخص للحاکم وغیرہ لیحکم لہ اویحملہ علی ما یریدترجمہ:رشوت یہ ہے کہ کوئی شخص حاکم یا کسی اور کو کچھ دے تاکہ وہ اس کے حق میں فیصلہ کردے یا حاکم وغیرہ  کو اپنی منشاء پوری کرنے پر ابھارے۔ (بحر الرائق ،ج6،ص362،دار الکتاب الاسلامی،بیروت)

   امام اہلسنت الشاہ امام احمدرضاخان علیہ الرحمۃ  رشوت کے متعلق فرماتے ہیں:”رشوت لینا مطلقاً حرام ہے کسی حالت میں جائزنہیں، جو پرایا حق دبانے کے لیے دیاجائے رشوت ہے ،یوہیں جو اپنا کام بنانے کے لیے حاکم کو دیاجائے رشوت ہے،لیکن اپنے اُوپر سے دفعِ ظلم کے لیے جو کچھ دیاجائے دینے والے کے حق میں رشوت نہیں یہ دے سکتا ہے ،لینے والے کے حق میں وہ بھی رشوت ہے اور اسے لینا حرام۔‘‘ (فتاوی رضویہ ،ج23،ص597،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

   عموماًجو اشیاء معمولی قیمت کی ہوتی ہیں اور ان کی وجہ سے کمپنی اپنی Products (مصنوعات)بیچنے کاپابندنہیں کرتی ، تویہ بغیرکسی عوض اپنی شے کاکسی کومالک بنانا ہوا، جو شرعی نقطۂ نظر سے  تحفہ کہلاتا ہے۔چنانچہ ملتقی الابحر میں ہبہ(تحفے) کی تعریف ان الفاظ سے کی گئی ہے:”الھبۃ: ھی تملیک عین بلاعوض“یعنی کسی شخص کو بغیرعوض کسی چیز کا مالک بنا دیناہبہ ہے  ۔(ملتقی الابحرمع مجمع الانھر،ج3،ص489،مطبوعہ کوئٹہ)

   امیراہلسنت  حضرت  علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطارقادری دامت برکارتہم العالیہ ڈاکٹرز کو دی جانے والی آفرز کا تفصیلی حکم بیان کرتے ہوئے  ارشاد فرماتے ہیں:ڈاکٹرز کو دواؤں کی کمپنی کی جانب سے تحفۃً جودوائیں ،گھڑی، قلم اور پیڈ وغیرہ ملتے ہیں وہ عموماً معمولی ہوتے ہیں اور کمپنی یہ اشیاء اپنی مشہوری کے لیے دیتی ہے، کیونکہ اکثر اوقات ان پر کمپنی کانام بھی موجود ہوتا ہے، جیسا کہ بہت سے ادارے سالانہ اپنی ڈائری جاری کرتے ہیں اور مختلف لوگوں کومفت دیتے ہیں۔لہٰذا اس مُعامَلے پرعُرف جاری ہونے کی وجہ سے ان معمولی اشیاء کا لینا اور کمپنی کا انہیں دینا جائز ہے اور یہ رشوت کے زُمرے میں نہیں۔

   دوا کی کمپنیوں کی طرف سے ڈاکٹروں کو رِشوت: اس کے علاوہ کار، A.C.اوردیگر  مَمالِک کے سفر کے لیے  ٹکٹ وغیرہ عموماً کمپنی کی جانب سے تحفۃً نہیں دیا جاتا،کیونکہ ڈاکٹر جو دوائی لکھ کر دے رہا ہے ،وہ تو اس کا کام ہے اور وہ علاج کی رقم بھی وُصول کرتا ہے ۔ کمپنی کے لیے اس نے جُداگانہ کوئی ایسا کام نہیں کیا جس کی اُجرت بنتی ہو، لہٰذا شرعاً یہ کمیشن یا اُجرت نہیں۔ ہاں اگر رِشوت ہی کو کمیشن کہیں ،تو اور بات ہے، جیسا کہ یہ بھی ہمارے عُرف ہی میں ہے کہ بعض اوقات جب پولیس کسی کا کام کروادیتی ہے، تو اس پر رِشوت لیتی ہے، مگر اسے رشوت کہنے کے بجائے اپنے حق یا اپنےکمیشن کا نام دیتی ہے، تو ایسا کمیشن بھی رِشوت ہی ہے ۔ کمپنی کے مختلف چیزیں دینے کا مقصد صرف اپنی میڈیسن (دوائیں)زیادہ سے زیادہ بکوانا ہوتا ہے، توکام نکلوانے کے لیے دینا رِشوت ہے،لہٰذا ڈاکٹر کمیشن کامطالبہ کرے تو رِشوت کا مطالبہ ہے اوراگر مطالبہ نہ بھی کرے تب بھی صَراحۃًیا دَلالۃً طے ہونے کی(یعنی کھلے لفظوں میں یا جو علامت سے ظاہر ہو، UNDERSTOOD ہو اُس)صورت میں رِشوت ہی ہے اور رِشوت حرام ہے۔‘‘  (غیبت کی تباہ کاریاں ،ص374،مکتبۃ  المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم