Kya Sadqa Ki Raqam Ghar Mein Rakhne Se Nahusat Hoti Hai ?

کیاصدقے کی رقم  گھر میں رکھنے سے نحوست ہوتی ہے ؟

مجیب:مفتی ابوالحسن محمد  ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:Lar-12627

تاریخ اجراء:01شعبان المعظم   1445 ھ/12فروری 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ گھروں میں نفلی صدقہ بکس رکھے ہوتے ہیں،جن میں روزانہ کی بنیادپرکچھ نہ کچھ نفلی صدقہ ڈالاجاتاہے،اورتقریباًایک ماہ بعدان پیسوں کوجمع کروادیاجاتاہے ۔ان پیسوں کے گھر میں رہنےکی وجہ سے  نحوست  ہوتی ہے یا نہیں ہوتی ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   صدقے کی نیت سے رقم الگ کر کے صدقہ بکس میں ڈالنا  یہ ثواب کا کام ہے کہ  یہ صدقہ کرنے کی نیت ہے اور نیکی کی نیت وارادہ بھی نیکی  اور باعثِ ثواب ہے،البتہ جب تک یہ رقم اس مقام پر نہ پہنچ جائے جس  پر صدقہ کی ہے ،تویہ صدقہ شمار نہیں ہوگی، کیونکہ  جب تک پیسے مطلوبہ مَصرف خیر تک نہ پہنچ جائیں ،اس وقت تک بندے کی ملکیت سے نہیں نکلتے، جیسا کہ فقہائے کرام نے زکوٰۃ کے متعلق بیان کیا ہے کہ زکوٰۃ کی رقم محض اپنے مال سے الگ کرلینے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی ، جب تک وہ رقم  کسی مستحق کونہ دے دی جائے ،کیونکہ جب تک وہ پیسے کسی فقیر کو مالک بناکرنہ دے دیے جائیں،صرف الگ کرلینے سے وہ بندے کی ملک سے نہیں نکلتے،یہی وجہ ہے کہ اگر وہ پیسے فقیر کو دینے سے پہلے ضائع ہوجائیں تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی اور فقیر کو دینے سے پہلے وہ شخص مرجائے، تو ان پیسوں میں وراثت جاری ہوتی ہے۔

   بہرحال صدقہ بکس میں موجود پیسوں کی وجہ سےگھر میں بالکل نحوست  نہیں ہوتی،بلکہ وہ  توصدقہ و نیکی کی نیت سے رکھے جاتے ہیں اور صدقہ ونیکی تو رحمت  وبرکت نازل ہونے کا سبب ہےاور اگر کوئی اس کو نحوست کا باعث سمجھتا ہے ،تو یہ اس کا وہم و جہالت ہے جو کہ باطل ہے اور بدشگونی لینا ہے، جس سے قرآن وحدیث میں منع کیاگیاہے۔ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو نیک شگون اس لیے پسند تھا کیونکہ بد شگونی اللہ تعالیٰ کے ساتھ براگمان رکھناہے اور نیک شگون اللہ تعالی کے ساتھ حسن ِ ظن رکھنا ہے اور مؤمن کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہر حال میں حسن ِ ظن رکھنے کا حکم ہے۔

   مسلم شریف کی روایت میں ہے:’’ من هم بحسنة فلم يعملها كتبت له حسنة‘‘ترجمہ: جو کسی نیکی کا ارادہ کرے ،لیکن  کر نہ سکے،تو اس کے لیے ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے۔(صحیح المسلم ،جلد1،صفحہ 118،دار إحياء التراث العربی ،بيروت)

   مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:’’قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم " بادروا " أی : الموت أو المرض أو غيركم " بالصدقة "ای : بإعطائها للمستحقة" ،" فإن البلاء لا يتخطاها " أي: لا يتجاوزها بل يقف دونها أو يرجع عنها‘‘ ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےارشادفرمایا: صدقہ سے سبقت حاصل کرویعنی بری موت یامرض یااس کے علاوہ سے،صدقہ کے ساتھ یعنی صدقہ کسی مستحق کودے کر،اس لیے کہ بلاا س سے آگے نہیں بڑھتی یعنی صدقہ سے آگے نہیں بڑھتی ،بلکہ کھڑی رہتی ہے یااس سے لوٹ جاتی ہے۔(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ،جلد4،صفحہ1333،دارالفکر،بیروت)

   درمختارمیں ہے:’’ ولا يخرج عن العهدة بالعزل   بل بالأداء للفقراء ‘‘ ترجمہ: مال کو  صرف الگ کردینے سے  وہ شخص بری الذمہ نہیں ہوگا (یعنی ملکیت سے خارج نہیں ہو گی)بلکہ فقراء کو  مالک بنا  نے کے ساتھ  بری الذمہ ہوگا(اور وہ رقم  ملکیت سے نکل جائے گی  (درمختار  ،جلد3 ،صفحہ225،دارالفکر،بیروت )

   مذکورہ بالا عبارت کے تحت علامہ شامی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:’’فلو ضاعت لاتسقط عنہ الزکاۃ ولو مات کانت میراثا عنہ‘‘ترجمہ:پس اگر وہ مال ضائع ہوگیا ،تو زکوٰۃ ساقط نہیں ہوگی اور اگر وہ مرگیا،تو وہ مال اس کی میراث ہوگا ۔(ردالمختار ،جلد3،صفحہ225،دارالفکر،بیروت )

   لطائف المعارف لابن رجب میں ہے:’’وفی حديث آخر: ’’إن لكل يوم نحسا فادفعوا نحس ذلك اليوم بالصدقة‘‘ فالصدقة تمنع وقوع البلاء بعد انعقاد أسبابه وكذلك الدعاء‘‘ ترجمہ: دوسری حدیثِ پاک میں ہے:’’ہر دن کی ایک نحوست ہوتی ہے ،لہٰذا اس دن کی نحوست کو صدقہ کے ذریعے دُور کرو‘‘ کہ صدقہ وہ عظیم عمل ہے جو بلا کے اسباب اکٹھے ہوجانے کے بعد بھی بلا کو دُور کردیتا ہے،یونہی دُعا کی بھی برکت ہے ۔(لطائف المعارف لابن رجب، صفحہ76، دار ابن حزم ،بیروت )

   سورۃ الاعراف میں بدشگونی کے بارے میں اللہ عزوجل ارشادفرماتاہے:﴿فَاِذَا جَآءَتْہُمُ الْحَسَنَۃُ قَالُوۡا لَنَا ہٰذِہٖ ۚ وَ اِنۡ تُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ یَّطَّیَّرُوۡا بِمُوۡسٰی وَمَنۡ مَّعَہٗ ؕ اَلَاۤ اِنَّمَا طٰٓئِرُہُمْ عِنۡدَ اللہِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَہُمْ لَایَعْلَمُوۡنَترجمۃ القرآن کنزالایمان:’’تو جب انہیں بھلائی ملتی کہتے یہ ہمارے لیے ہےاور جب برائی پہنچتی ،تو موسیٰ اور اس کے ساتھ والوں سے بدشگونی لیتے ۔سن لو ان کے نصیبہ(مُقَدَّر) کی شامت تو اللہ کے یہاں ہے، لیکن ان میں اکثر کو خبر نہیں۔ (سورة الاعراف ،آیت نمبر131)

   ایک اورمقام پر  اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے:﴿مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمْ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مِّنۡ قَبْلِ اَنۡ نَّبْرَاَہَا ؕ اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللہِ یَسِیۡرٌترجمہ قرآن کنزالایمان :’’نہیں پہنچتی کوئی مصیبت زمین میں اور نہ تمہاری جانوں میں ،مگر وہ ایک کتاب میں ہے قبل اس کے کہ ہم اسے پیدا کریں بے شک یہ اللہ کو آسان ہے۔(سورۃ الحدید، آیت 22)

   حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’لیس منا من تطیر‘‘ترجمہ:جس نے بد شگونی لی ،وہ ہم میں سے نہیں(یعنی ہمارے طریقے پر نہیں۔)(المعجم الکببیر،جلد18،صفحہ162،بیروت)

   سنن ابی داؤد میں ہے:’’ اَلْعِیَافَۃُ وَالطِّیَرَۃُ وَالطَّرْقُ مِنَ الْجِبْتِ‘‘ترجمہ: شگون لینے کے لیے پرندہ اُڑانا ، بَدشگونی لینااورطَرْق(یعنی کنکر پھینک کر یا ریت میں  لکیر کھینچ کر فال نکالنا)شیطانی کاموں میں سے ہے۔(ابوداوٗد، جلد4،صفحہ22،دارالاحیاالتراث،بیروت)

   امام اہلسنت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن ارشادفرماتے ہیں :’’آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’بری فال نکالنا اور اس پر کار بندہونا مشرکین کا طریقہ اور دستور ہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ  ،جلد23، صفحہ266، رضافاؤنڈیشن ،لاھور)

   فتاوی رضویہ میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیاگیاکہ ’’یہاں عام طور سے تمام شہر متفق ہے کہ درخت پپیتہ جس کوارنڈ خرپزہ کہتے ہیں مکان مسکونہ میں لگانا منحوس ہے اور منع ہے چونکہ یہاں یہ بکثرت اور نہایت لذیذ ہیں،لہذا التماس ہے کہ اس بارے میں احکام شرعی سے مع حوالہ کتب بالتشریح خبردار کیجئے؟‘‘تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جوابا ًارشاد فرمایاکہ:’’ شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں، شرع نے نہ اسے منحوس ٹھہرایا ،نہ مبارک۔‘‘(فتاوی رضویہ ،جلد23، صفحہ267، رضافاؤنڈیشن ،لاھور)

   فتح الباری میں ہے :’’قال الحلیمی وإنما کان صلی اللہ علیہ و سلم یعجبہ الفال لأن التشاؤم سوء ظن باللہ تعالی بغیر سبب محقق والتفاؤل حسن ظن بہ والمؤمن مأمور بحسن الظن باللہ تعالی علی کل حال ‘‘ترجمہ:حلیمی نے کہاکہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو نیک شگون اس لیے پسند تھا کیونکہ بد شگونی اللہ تعالی کے ساتھ براگمان رکھناہے اور نیک شگون اللہ تعالی کے ساتھ حسن ِ ظن رکھنا ہے اور مؤمن کو اللہ تعالی کے ساتھ ہر حال میں حسن ِ ظن رکھنے کا حکم ہے ۔(فتح الباری ،جلد10 ، صفحہ215 ، دار المعرفہ،بیروت )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم