مجیب: مفتی محمدقاسم عطاری
فتوی نمبر: FSD-8946
تاریخ اجراء: 07 ذوالحجۃ الحرام1445ھ/14جون 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلےکےبارے میں کہ دیہاتوں میں جیٹھ اور ہاڑ کے مہینوں میں کبوتر بازی کے مقابلے ہوتے ہیں۔ کبوتر باز پورا سال مخصوص نسل کے کبوتروں کو تیار کرتے ہیں۔ انہیں زعفران، کشمش، بادام، چاندی کے ورق اور دیسی کشتہ جات کھلاتے ہیں۔ پھر بالخصوص اڑاتے وقت انہیں خاص انجیکشن بھی لگاتے ہیں۔ صبح پانچ چھ بجے اڑاتے اور پھر اترنے نہیں دیتے۔ جو سب سے آخر میں اترے، وہی جیتتا ہے اور آخری اترنے والا عموماً شام پانچ چھ بجے اترتا ہے، یعنی اسے بارہ گھنٹے مسلسل اڑایا جاتا ہے۔ اسی طرح لوگ ان کبوتروں پر کافی زیادہ رقم بھی لگاتے ہیں، یعنی جیتے کبوتر پر رقم لگانے والا بقیہ کبوتروں پر لگی ہوئی رقم کا مالک سمجھا جاتا ہے۔اس تمام تفصیل کی روشنی میں اس مقابلے اور اس پر لگنے والی رقم کے متعلق حکم شرعی بیان فرما دیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
ہمارا دین ِ اسلام حیوانات پر رحم کرنے کا حکم دیتا اور اُنہیں بلاوجہِ شرعی ایذا اور تکلیف دینے کی سخت مذمت کرتا ہے۔احادیثِ مبارکہ میں حیوانات پر رحم کرنے کی تلقین اور اُن کے متعلق سنگ دِلی کا مظاہرہ کرنے سے منع کرتے ہوئے عذابِ آخرت سے ڈرایا گیا ہے، لہٰذا قرآن وحدیث کی تعلیمات کی روشنی میں حکم شرعی یہ ہے کہ کبوتروں کی یوں بازیاں لگوانا کہ اُنہیں بھوکا پیاسا رکھ کر سخت گرمی میں مسلسل اڑائے رکھنا، دانہ پانی کے لیے اترنا چاہیں تو اترنے نہ دینا، صرف اپنا شوق پورا کرنے ، مقابلہ جیتنے اور انعامات حاصل کرنے کے مذموم مقاصد کے لیے بےزبان قابلِ رحم پرندے کو یوں عذاب میں مبتلا کرنا ، شدید ظلم، ناجائز ، گناہ اور آخرت میں سخت عذاب کا باعث ہے۔
اِس کبوتر بازی میں جو لوگ کبوتروں پر پیسے لگاتے ہیں کہ جیتنے والا ہارے ہوئے کبوتروں پر لگے پیسے حاصل کرتا ہے اور باقی سب اپنے پیسے ہار جاتے ہیں، یہ سو فیصد جُوا ہے۔ اِس انداز میں جو رقم حاصِل کی گئی، وہ مالِ خبیث ہے اور لینے والے کی ملکیت میں داخل ہی نہیں ہوتی، لہٰذا جس کے پاس ایسی رقم یا مال ہو اُس پرفرض ہے کہ جس سے وہ مال لیا اُسے واپس کرے اوراگر وہ زندہ نہ رہا ہو ،تو اُس کے وارِثین یعنی اولاد وغیرہا کو واپس کرے اوراگر وہ مالِک یا اُس کی اولاد میں سے کوئی نہیں ملتا، تو اِس پر ضروری ہے کہ اُن مالکان کی طرف سے بغیر ثواب کی نیت کیے، کسی فقیرِ شرعی کو دیدے۔
تمام حیوانات ہماری طرح خدا کی مخلوق ہیں، چنانچہ ارشاد ہوا:﴿ وَمَا مِنۡ دَآبَّۃٍ فِی الۡاَرْضِ وَلَا طٰٓئِرٍ یَّطِیۡرُ بِجَنَاحَیۡہِ اِلَّاۤ اُمَمٌ اَمْثَالُکُمۡ ﴾ترجمہ کنزالعرفان:’’اور زمین میں چلنے والا کوئی جاندار نہیں ہے اور نہ ہی اپنے پروں کے ساتھ اڑنے والا کوئی پرندہ ہے، مگر وہ تمہاری جیسی امتیں ہیں۔ (پ 07، الانعام 38)
اِس آیت کے تحت مشہور مفسِّر علامہ قرطبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(وِصال:671ھ/1272ء) لکھتے ہیں:’’ أي هم جماعات مثلكم في أن اللہ عز وجل خلقهم، وتكفل بأرزاقهم، وعدل عليهم، فلا ينبغي أن تظلموهم، ولا تجاوزوا فيهم ما أمرتم به‘‘ترجمہ:یعنی اُن کی تمہاری طرح ہی جماعتیں اور گروہ ہیں، وہ یوں کہ انہیں بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا، اُن کے رزق کو اپنے ذمہ کرم پر لیا اور اُن میں عدل قائم کیا، پس یہ ہرگز مناسب نہیں کہ تم اُن جانوروں پر ظلم کرو ، نیز اُن کے بارے میں جو تمہیں حکم دیا گیا ہے، اُس سے تجاوُز نہ کرو۔(الجامع لاحکام القرآن للقرطبی، جلد6، صفحہ 419، مطبوعہ دارالکتب المصریہ، قاهرہ)
حیوان پر ظلم عذابِ آخرت کا باعث ہے۔ ”صحیح البخاری“ میں ہے:’’عذبت امرأة في هرة سجنتها حتى ماتت فدخلت فيها النار لا هي أطعمتها ولا سقتها إذ حبستها ولا هي تركتها تأكل من خشاش الأرض‘‘ ترجمہ:ایک عورت کو بلی کی وجہ سے عذاب ہوا، جسے اس نے اتنی دیر تک باندھے رکھا تھا کہ وہ بھوک کی وجہ سے مر گئی اور وہ عورت اسی وجہ سے دوزخ میں داخل ہوئی۔ اس نے جب بلی کو باندھ رکھا، تو اس دوران نہ اُسے کچھ کھلایا، نہ پلایا اور نہ چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے ہی کھا کر اپنا پیٹ بھر لیتی۔(صحیح البخاری، جلد04، صفحہ 176، مطبوعہ دار طوق النجاہ، بیروت)
کبوتروں کو تیز اڑانا معصیت ہے،چنانچہ شارِح بخاری علامہ بدرالدین عینی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 855ھ/1451ء) لکھتےہیں:’’والمناطحة في الكبش، والطيران السريع في الحمامة، والمقاتلة في الديك، والخصي في العبد، فإن هذه الأشياء كلها معصية‘‘ ترجمہ:مینڈھوں کو سینگوں سے باہم لڑوانا، کبوتر کو تیز اڑانا، مرغوں کو آپس میں لڑوا کر مروانا، غلام کا خصی ہونا، یہ تمام چیزیں مَعْصِیَّت یعنی گناہ ہیں۔(البنایۃ شرح الھدایہ، جلد11، صفحہ272، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت)
امامِ اہلِ سنَّت ، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1340ھ/1921ء) ”کبوتر بازی“ اور اِن کے مقابلوں کے متعلق بہت خوبصورت اور فکر انگیز کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’اُن کاخالی اڑانا کہ نہ کسی کی بے پردگی ہو، نہ کنکریوں سے نقصان، خود کب ظلمِ شدید سے خالی ہے، جبکہ رواج ِزمانہ کے طور پر ہو کہ کبوتروں کو اڑاتے ہیں اور اُن کا دَم بڑھانے کے لیےمحض بے فائدہ اپنے بیہودہ بے معنی شوق کے واسطے اُنہیں اترنے نہیں دیتے، وہ تھک تھک کے نیچے گرتے، یہ مار مار کر پھر اڑادیتے ہیں۔ صبح کا دانہ دیر تک کی محنت شاقہ پرواز سے ہضم ہوگیا، بھوک سے بیتاب ہیں اور یہ غل مچاکر بانس دکھا کر آنے نہیں دیتے، خالی معدے شہپر تھکے اور کسی طرح نیچے اترنے، دم لینے، دانہ پانی سے اَوسان ٹھکانے کرنے کاحکم نہیں۔ یہاں تک کہ گھنٹوں اور گھنٹوں سے پہر وں اُنہیں اِسی عذاب شدید میں رکھتے ہیں،یہ خود کیا کم ظلم ہے ؟اور ظلم بھی بے زبان بے گناہ جانور پر کہ آدمیوں کی ضرر رسانی سے کہیں سخت تر ہے۔۔۔بے درد کو پرائی مصیبت نہیں معلوم ہوتی، اپنے اوپر قیاس کرکے دیکھیں، اگر کسی ظالم کے پالے پڑیں کہ وہ میدان میں ایک دائرہ کھینچ کر گھنٹوں اُن سے کا واکاٹنے کو کہے، یہ جب تھکیں، پست ہو کر رکیں، کوڑے سے خبر لے، اُن کا دم چڑھ جائے، جان تھک جائے، بھوک پیاس بے حد ستائے، مگر وہ کوڑا لیے تیار ہے کہ رکنے نہیں دیتا، اُس وقت ان کو خبر ہو کہ ہم بے زبان جانور پر کیساظلم کرتے تھے، دنیا گزشتنی ہے، یہاں احکام ِشرع جاری نہ ہونے سے خوش نہ ہوں، ایک دن انصاف کاآنے والا ہے، جس میں شاخ دار بکری سے مُنڈی بکری کا حساب لیا جائے گا، حالانکہ جانور غیر مکلف ہے، تو تم مکلفین کہ تمہارے ہی لیے ثواب وعذاب ِجنت وجہنم تیار ہوئے ہیں، کس گھمنڈ میں ہو!‘‘(فتاویٰ رضویہ، جلد16،صفحہ309،310،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
کبوتر بازی میں دونوں طرف سے جو رقم یا چیز متعین کی جاتی ہے، وہ خالِص جوا ہے اور جوئے کی مذمت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾ترجمہ کنزالعرفان:’’ اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور قسمت معلوم کرنے کے تیر ناپاک شیطانی کام ہی ہیں، تو ان سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔“ (پ 07، المائدۃ90 )
ابوالمَعَالی علامہ بخاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:616ھ/1219ء) لکھتےہیں:’’فإن شرطوا الجعل من الجانبين فهو حرام وصورة ذلك: أن يقول الرجل لغيره:تعال حتى نتسابق، فإن سبق فرسك، أو قال: إبلك أو قال: سهمك أعطيك كذا، وإن سبق فرسي، أو قال: إبلي، أو قال: سهمي أعطني كذا، وهذا هو القمار بعينه‘‘ ترجمہ:اگر جانبین سے ”جَعْل“ یعنی کسی رقم یا انعام کی شرط لگائی جائے تو یہ سراسَر حرام ہے۔ اِس کی صورتِ مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے سے کہے: آؤ مقابلہ کریں، اگر تمہارا گھوڑا، اونٹ یا نیزہ آگے بڑھ گیا، تو میں تمہیں فلاں چیز دوں گا اور اگر میرا اونٹ یا نیزہ آگے بڑھ گیا تو تم مجھے فلاں چیز دو گے۔ یہ خالِص جوا ہے۔(المحیط البرھانی، جلد5، صفحہ323، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان)
جس نے جوئے کے ذریعے مال کمایا، تو اُس پر لازم ہے کہ مالِکان کو واپس کرے، چنانچہ امامِ اہلسنّت، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نےلکھا:’’جس قدر مال جوئے میں کمایا محض حرام ہے اور اس سے بَراء َ ت یعنی نَجات کی یِہی صورت ہے کہ جِس جِس سے جتناجتنا مال جِیتاہے اُسے واپَس دے، یا جیسے بنے اُسے راضی کرکے مُعاف کرالے، وہ نہ ہو،تو اُس کے وارِثوں کو واپس دے، یا اُن میں جو عاقِل بالِغ ہوں ان کا حصّہ اُن کی رِضامندی سے مُعاف کرالے۔ باقیوں کا حصّہ ضَرور انہیں دے کہ اِس کی مُعافی ممکن نہیں، اورجن لوگوں کا پتا کسی طرح نہ چلے، نہ اُن کا، نہ اُن کے وَرَثہ کا ، اُن سے جس قَدَر جیتا تھا، اُن کی نیّت سے خیرات کردے، اگرچہ خوداپنے ہی محتاج بہن بھائیوں، بھتیجوں، بھانجوں کو دے دے۔‘‘(فتاویٰ رضویہ، جلد19،صفحہ651،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
مذکورہ تمام دلائل سے اِس کی خرابیاں اپنی جگہ، مگر اِس کی دوسری اور بہت بڑی دینی اور معاشرتی خرابی یہ ہے کہ ایسے کاموں میں ملوث شخص فقط اِن ہی کاموں کی نذر ہو جاتا ہے اور اپنے فرائض منصبی اور مقاصِدِ زندگی سے غافِل ہو جاتا ہے۔ مشہور محدث حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1176ھ/1762ء) نے لکھا:’’منها الاشتغال بالمسليات وهي ما يسلي النفس عن هم آخرته ودنياه ويضيع الأوقات كالمعازف والشطرنج واللعب بالحمام واللعب بتحريش البهائم ونحوها؛ فان الانسان إذا اشتغل بهذه الأشياءلها عن طعامه وشرابه وحاجته، وربما كان حاقنا لا يقوم للبول فان جرى الرسم بالاشتغال بها صار الناس كلا على المدينة،ولم يتوجهوا إلى إصلاح نفوسهم ‘‘ترجمہ:لغو کاموں میں سے ایک یہ ہے کہ مستیوں میں مشغول ہو جانا، جو کہ اُسے دنیا اور آخرت سے بے فکر بنا دیتی اور وقت کو ضائع کرتی ہیں، مثلاً: باجے، شطرنج، کبوتر بازی، جانوروں کو آپس میں لڑوانا وغیرہا۔ جب اِنسان اِن چیزوں میں مشغول ہو جاتا ہے، تو کھانے پینے اور ضروری کاموں سے بھی غافل ہو جاتا ہے اور بسا اوقات اسے پیشاب کی حاجت ہوتی ہے، مگر نہیں اٹھتا، اگر ان کاموں کی رسم چل پڑے ،تو یہ لوگ شہر پر بوجھ بن جائیں گے اور اصلاحِ نفس کی طرف توجہ بھی نہیں کریں گے۔(حجۃ اللہ البالغہ، جلد2،من ابواب المعیشۃ، صفحہ 297، مطبوعہ دارالجیل، بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
غیر مسلم سے زنا کاحکم؟
زانیہ بیوی سے متعلق حکم
کیا آئندہ گناہ کرنے کی نیت سے بھی بندہ گنہگار ہوجاتاہے؟
سجدۂ تحیت کے متعلق حکم
پلاٹ کی رجسٹری کے نام پر مٹھائی لینا کیسا؟
رشوت کے تحفے کا حکم
شراب پینے سے کب وضو ٹوٹے گا؟
امتحانات میں رشوت لے کر نقل کروانا کیسا ؟